EPA
صوبۂ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست کی سماعت پیر کے روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شروع کی تو عدالت نے حکمراں اتحاد میں شامل تین اہم جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے وکلا سے استفسار کیا کہ وہ اپنے کلائنٹس سے پوچھ کر بتائیں کہ کیا انھیں اس بینچ پر اعتماد ہے یا نہیں۔
اس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے واضح جواب تو نہیں دیا البتہ محض اسی بات پر اکتفا کیا کہ وہ کمرۂ عدالت میں تو موجود ہیں۔
عدالت نے تینوں جماعتوں کے وکلا سے کہا کہ وہ تحریری طور پر اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کریں۔ لیکن سماعت ختم ہونے تک ان جماعتوں کی طرف سے عدالت کو کوئی تحریری یقین دہانی نہیں کروائی گئی۔
پیر کے روز سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور دیگر رہنما موجود تھے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے محسن شاہنواز رانجھا اور پیپلز پارٹی کےمشیر قمر زمان کائرہ کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے درخواست پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو کل (منگل) سنایا جائے گا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ہے کہ صرف عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے اور عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا۔
گذشتہ روز کی سماعت کا احوال
چار تین یا تین دو؟
سماعت شروع ہوتے ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو روسٹرم پر بلایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ عدالت اس معاملے کو سننے سے پہلے یہ بات طے کرے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق از خود نوٹس لینے کا فیصلہ چار تین کا ہے یا تین دو کا، کیونکہ عدالتی حکم نامے میں ان دو ججوں کی بھی رائے شامل ہے جنھوں نے اس از خود نوٹس کی کارروائی کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے تین دو سے یہ رائے دی تھی کہ پنجاب میں انتخابات 30 اپریل کو کروائے جائیں۔ لیکن اس فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحٰی آفریدی کی رائے بھی شامل تھی، جس میں انھوں نے اس از خود نوٹس کو قبل از وقت قرار دیتے ہوے ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
حکومت کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ چار تین کا ہے اور سپریم کورٹ کے چار ججوں نے ان درخواستوں کو مسترد کیا ہے۔
اس تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جن دو ججوں نے اس مقدمے کو سنا ہی نہیں تو ان کی رائے کو اکثریتی فیصلہ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کم از کم ان ججوں کی رائے پر نظرثانی تو کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسی ابہام کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فل کورٹ بنائی جائے تاکہ پوری عوام عدالت کے اس فیصلے سے متفق ہو۔
اس موقع پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی استدعا کو پہلے ہی مسترد کیا جاچکا ہے۔ البتہ اگر وہ لارجر بینچ کے بارے میں کہیں تو اس پر سوچا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ججوں کا فل کورٹ اجلاس ہو جائے تو یہ بھی بہتر ہو سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہا جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہو ہو کر کہا کہ عدالت بیک جنبشِ قلم ایک آئینی ادارے کو غیر مؤثر قرار نہیں دے سکتی۔ انھوں نے کہا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے عدالت کا نہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے اس جواب پر بینچ کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں بھی سن لیا جائے، لیکن عدالت کی طرف سے انھیں متعدد بار یہی کہا گیا کہ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھیں اور یہ کہ انھیں ضرور سنا جائے گا۔
سیکریٹری دفاع اور خزانہ کی پیشی
عدالت کی طرف سے سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ سماعت کے دوران جب سیکریٹری دفاع سے انتخابات میں فوج کی تعیناتی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں عدالت کو اِن کیمرا (بند کمرے میں) بریفنگ دینا چاہیں گے کیونکہ بہت سے حساس معاملات ہیں جن کو پبلک میں نہیں لایا جا سکتا۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ چلیں خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری ہے لیکن پنجاب میں بظاہر معاملہ اتنا حساس نہیں ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پچاس فیصد پولنگ سٹیشنوں کو حساس قرار دیا ہے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ پاکستان کی مسلح افواج میں صرف بری فوج ہی نہیں ہے ایئر فورس اور نیوی بھی اس کا حصہ ہیں، اور اگر بری فوج شدت پسندی کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے تو فضائیہ اور بحریہ کے اہلکاروں کو بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے یہ بھی استفسار کیا کہ کیا ریٹائرڈ فوجیوں کی بھی کوئی فورس موجود ہے، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اسے ریزرو فورس کہتے ہیں اور ان کو خصوصی حالات میں بلایا جاتا ہے، جس کی منظوری وفاقی کابینہ دیتی ہے۔ جواب سننے کے بعد چیف جسٹس کی طرف سے اس نقطے پر زور نہیں دیا گیا۔ تاہم پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ صرف ایک ہی دن یعنی پولنگ ڈے کے لیے فوج کو تعینات ہونا ہے اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔
فنڈز کی کمی کے معاملے پر ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ اور اٹارنی جنرل کی طرف سے معاونت نہ کرنے پر بینچ نے ناراضی کا اظہار کیا۔ تاہم کمرۂ عدالت میں موجود پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ کا حجم سات سو ارب روپے ہے جبکہ انتخابات کے لیے صرف بیس ارب درکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تک اس رقم میں سے صرف دو سو تیس ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کا کچھ حصہ متاثرہ علاقوں میں خرچ کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس اور سوشل میڈیا
عدالت نے جب الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کو دلائل کے لیے طلب کیا تو چیف جسٹس نے ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ کیا وہ تین منٹ تک اپنے دلائل مکمل کر لیں گے جس پر انھوں نے بتایا کہ وہ آدھے گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔
عرفان قادر نے اپنے دلائل میں ہی چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ ’مائی لارڈ! آپ نے گذشتہ دو تین دنوں کا سوشل میڈیا دیکھا ہے؟ اس میں پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کے حوالے سے آپ ہی ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں ا ور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس تین رکنی بینچ کا جھکاؤ ایک جماعت کی طرف ہے۔‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا نہیں دیکھتے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ایک تاثر یہ بھی ابھر رہا ہے کہ یہ بینچ جانب دار ہے۔ انھوں نے کہا کہ انصاف صرف ہو نہیں بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے وکیل کے بقول انھیں اس معاملے میں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
انھوں نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تین ججوں کو اس درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے وقت اور حالات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
انھوں نے کہا ملک میں گذشتہ پچاس سال کے دوران قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز میں ہوتے رہے ہیں۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہ تو سپریم کورٹ کے پاس ہے اور نہ ہی صدر مملکت کے پاس۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں صدر مملکت ایک علامتی عہدہ ہے اور وہ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔
انھوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کر دیا گیا لیکن اسی نوعیت سے متعلق درخواست کی سماعت میں تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل کر لیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اس کی کچھ وجوہات ہیں لیکن ’میں وہ وجوہات آپ کو بتانے کا پابند نہیں ہوں۔‘ اس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں تو قوم کو ہی بتا دیں، جس کا چیف جسٹس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سوالات کی بوچھاڑ
الیکشن کمیشن کے وکیل جب تک دلائل دیتے رہے تو اس تین رکنی بینچ کی طرف سے ایک بھی سوال ان سے نہیں پوچھا گیا۔ جبکہ اس کے برعکس اٹارنی جنرل جب دلائل دے رہے تھے تو بینچ کی طرف سے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی اور بعض سوالات پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عرفان قادر اس پر بات کرنا چاہتے ہیں لیکن عدالت انھیں موقع نہیں دے رہی تھی۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس تین رکنی بینچ سے متعلق جب تحریری طور پر عدالت کو نہیں آگاہ کیا گیا تو سماعت کے آخر میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے سیاسی معاملات عدالتوں میں آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پاکستان کے عوام کے لیے کام کریں۔ انھوں نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں ڈائیلاگ پر متفق نہ ہوئیں تو عدالت کے سامنے آئین موجود ہے۔
سماعت سے پہلے اور بعد میں سپریم کورٹ کے باہر شاہراۂ دستور پر مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وکلا ٹولیوں کی شکل میں موجود تھے۔