سابق کرکٹر اور کانگریس رہنما نوجوت سنگھ سدھو دس ماہ بعد جیل سے رہا

بی بی سی اردو  |  Apr 01, 2023

کانگریس لیڈر اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو تین دہائیوں پرانے روڈ ریج کیس میں 10 ماہ کی سزا کے بعد سنیچر کو پٹیالہ جیل سے قبل از وقت رہا کر دیا گیا۔

جیل سے باہر آنے کے بعد سدھو نے صحافیوں سے کہا کہ ’حکومتوں کے پاس سچ سننے کی طاقت نہیں ہے۔ ایک خوف ہے کہ وہ سچ کی آواز نہیں سننا چاہتی تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مجھے یہ وقت دیا۔ دن کے پونے بارہ بجے۔ اس ملک میں آمریت آئی، انقلاب آیا اور آج میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس انقلاب کا نام راہول گاندھی ہے۔‘

یاد رہے سدھو کو گذشتہ سال سپریم کورٹ نے سنہ 1988 کے روڈ ریج کیس میں ایک سال کی سزا سنائی تھی۔ اس کے بعد سدھو نے خود کو عدالت کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ پچھلے دس ماہ سے جیل میں ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق جمعے کے روز کانگریس کے سینيئر کانگریس رہنما لال سنگھ اور مہندر سنگھ نے جیل میں سدھو سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ وہاں ایک آدھ گھنٹے گزارے۔ جیل سے باہر لال سنگھ نے کہا کہ 'کارکن اپنے شعلہ بیان رہنما کے استقبال کے لیے تیار ہیں اور سدھو ریاست میں اور ملک گیر سطح پر پارٹی کی احیا کے لیے پرجوش ہیں۔'

دریں اثنا ان کی رہائی سے قبل جیل کے باہر ڈھول تاشے کے ساتھ ایک مجمع لگا ہوا تھا اور کانگریس رہنما ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

سدھو کی رہائی کے حوالے سے ان کے وکیل اے پی ایس ورما کا کہنا ہے کہ پنجاب جیل کے قوانین کے مطابق اچھا برتاؤ کرنے والے قیدی کی سزا میں تخفیف کی جا سکتی ہے اور شاید اسی لیے انھیں قبل از وقت رہا کیا جا رہا ہے۔

سدھو پر الزام تھا کہ انھوں نے 27 دسمبر 1988 کو پٹیالیہ میں ایک کار پارکنگ میں بحث کے دوران گرنام سنگھ نام کے ایک شخص کی پٹائی کی جس سے ان کی موت ہو گئی۔

واضح رہے کہ اس وقت نوجوت سنگھ سدھو انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے رکن تھے۔

Getty Imagesسدھو کے خلاف مقدمہ کیا تھا؟

پولیس ریکارڈ کے مطابق 27 دسمبر 1988 کو سدھو کی پٹیالہ کی ایک پارکنگ میں 65 سالہ گرنام سنگھ سے لڑائی ہوئی۔ اس واقعے کے بعد، جب گرنام سنگھ کی موت ہوئی تو سدھو اور ان کے دوست موقع سے فرار ہو گئے تھے۔

ذیلی عدالت نے اس معاملے میں سدھو کو تمام الزامات سے بری کر دیا تھا لیکن 1999 میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی۔

سنہ 2018 میں ‏عدالت عظمیٰ نے سدھو کو 65 برس کے شخص کو غیر ارادی طور پر قتل کرنے کے الزام سے بری کرتے ہوئے ان پر ایک ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی سزا، جو تین برس قید کی سزا تھی، ختم کر دی تھی۔ مقتول کے گھر والوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی۔

اس اپیل کوعدالت نے تسلیم کر لیا اور ہائی کورٹ کی جانب سے تین برس قید کی سزا کو کم کرتے ہوئےایک سال قید کی سزا سنائی۔

کرکٹ سے سیاست تک

نوجوت سنگھ سدھو 1983 سے 1999 تک انڈیا کی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے اور ان کا شمار جارحانہ بلے بازوں میں کیا جاتا تھا۔

انھوں نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف 1999 میں کھیلا جس میں وہ صرف ایک ہی رن بنا پائے تھے۔

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سدھو نے بطور کمینٹیٹر نام کمایا اور انڈین ٹی وی شوز میں بھی ایک مخصوص سٹائل کے ساتھ نظر آئے۔

سدھو نے سیاست میں بھی قدم رکھا اور پہلے بی جے پی اور بعد میں انڈین کانگریس پارٹی میں شامل ہوئے۔ انھوں نے امرتسر سے الیکشن جیتا اور کانگریس پنجاب کے صدر بھی رہے۔

2018 میں نوجوت سنگھ سدھو انڈیا میں اس وقت ایک تنازعے کی زد میں آئے جب پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں وہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بغل گیر ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین سکھ رہنما: سدھو ایک بے مہار نادان یا زیرک سیاست دان

نوجوت سنگھ سدھو: کیا پنجاب میں کانگریس کی شکست کی ایک وجہ سدھو بھی ہیں؟

نوجوت سنگھ سدھو کو روڈ ریج کیس میں ایک برس قید کی سزا

AFPعمران خان اور نوجوت سنگھ سدھوتنازعات سے چولی دامن کا ساتھ

سدھو جو ایک بے باک اور جوشیلے انسان ہیں ہمیشہ ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور کسی نہ کسی تنازعے میں گھرے رہتے ہیں۔

نوجوت سنگھ سدھو نے سنہ 1996 میں اس وقت ایک طوفان برپا کر دیا تھا جب وہ انگلینڈ کا دورہ کرنے والی انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر الدین سے جھگڑے کے بعد دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس انڈیا چلے گئے تھے۔

انڈین کرکٹ بورڈ کے سابق اہلکار نے حال ہی میں اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ سدھو جو اس وقت انڈین کرکٹ ٹیم کے ایک اہم کھلاڑی تھے بظاہر اظہر الدین کی طرف سے مذاق میں دی گئی ایک گالی پر غصے میں آ گئے تھے۔

ماہر سیاسیات اشوتوش کمار کا کہنا ہے 'وہ ایک عام سیاست دان نہیں ہیں۔ وہ منجھے ہوئے نہیں ہیں، بے وقت بولتے ہیں اور مل کر چلنے والے نہیں ہیں، تول کر نہیں بولتے اور بہت غصے والے انسان ہیں۔‘

سدھو کے دوست انھیں ایک ایسا قابل شخص سمجھتے ہیں جو مختلف میدانوں میں کامیاب رہے ہیں۔

وہ بین الاقوامی سطح کے کرکٹر، کامیاب ٹی وی تبصرہ نگار، ٹی وی پر ایک مزاحیہ پروگرام کے مستقل میزبان اور جج رہ چکے ہیں۔

وہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’میرے دوست عمران خان نے میری زندگی کو کامیاب بنایا۔ انھوں نے سیاست اور مذہب کو علیحدہ کیا۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ سدھو کی کرکٹ ان شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی آئینہ دار ہے۔ وہ بیک وقت ایک دھواں دار شاٹس کھیلتے اور ایک سخت بلے باز تھے۔

انھوں نے انڈیا کی طرف سے سنہ 1983 اور 1999 تک اکاون ٹیسٹ میچ کھیلے اور 42 اعشاریہ 13 کی اوسط سے رنز سکور کیے۔

Getty Images

ایک نیوز میگزین نے ان کی ایسی خصوصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ ’اپنی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے وہ پارٹیوں میں شرکت نہیں کرتے تھے، فلمیں دیکھنے نہیں جاتے تھے اور کسی بھی نامناسب عادتوں کا شکار نہیں ہوئے۔‘

سدھو ایک مذہبی شخص ہیں اور گوشت خور نہیں ہیں صرف سبزیاں کھاتے ہیں۔

مصنف امت شرما کا کہنا ہے کہ تبصرہ نگار کی حیثیت سے جوشیلے انداز رکھنے والے سدھو نے لوک مزاحیہ طرز اپناتے ہوئے خوب پذیرائی حاصل کی۔ امت شرما نے سدھو کے فقرے بازی کی چند مثال دیں کہ ’ایک فارغ شخص کا دماغ ایسی جگہ ہے جہاں شیطانی خیالات انڈے دیتے ہیں۔‘

اس کے بعد ان کا کامیڈی شو کرنے کا دور شروع ہوتا ہے جہاں وہ بھڑکیلے رنگوں کی پگڑیاں اور ان کے ساتھ بہترین قسم کے سوٹ زیب تن کر کے آتے ہیں۔

سنہ 2019 میں ان کو کچھ ایسے کلمات ادا کرنے پر شو سے ہٹا دیا جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ایک خود کش حملے میں 40 سے زیادہ انڈین فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

سدھو نے کہا تھا کہ کچھ افراد کی غلطیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قراد دینا درست نہیں ہے۔ اُن کے ان کلمات پر بہت تنقید ہوئی اور انھیں حب الوطنی کے خلاف قرار دیا گیا۔

کرکٹ تبصرہ نگار ایاز میمن کا کہنا ہے کہ سدھو بحیثیت کرکٹر اور کمنٹیٹر اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست میں آئے تاکہ اس کی بدولت ووٹ حاصل کیے جائیں۔

سنہ 2004 میں انھوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی اور امرتسر کی نشست سے کامیابی حاصل کی تھی۔ سنہ 2016 میں انھوں نے ٹکٹ نہ دیے جانے پر پارٹی چھوڑ دی۔ اس کے بعد الیکشن سے پہلے انھوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More