جھوٹ پکڑنے کے وہ طریقے جو ’باڈی لینگویج کا جائزہ‘ لینے سے زیادہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Mar 31, 2023

Getty Images

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ پاس کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یا کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ لوگوں کی باڈی لینگویج پڑھنا کیسا ہو گا؟

تاہم سچ یہ ہے کہ اس بات کے زیادہ ثبوت نہیں ہیں کہ آپ بولنے والے شخص کی باڈی لینگویج کو دیکھ کر اس کے جھوٹ کا پتہ لگا سکتے ہیں یا نہیں۔

جب آپ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا کوئی انٹرویو میں جھوٹ بول رہا ہے، تو آپ کو اس شخص کے سلوک کو دیکھنا ضروری ہے یا وہ معلومات جو وہ شخص آپ کو دیتا ہے۔

نان وربل یا باڈی لینگویج کے ذریعے جھوٹ کا پتہ لگانا زبانی جھوٹ کا پتہ لگانے سے زیادہ مقبول ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والے اپنی زبان کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اپنے رویے کو نہیں۔

لیکن دھوکہ دینے کے زبانی اشارے بہت زیادہ عیاں ہوتے ہیں۔

ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والے پریشان ہوتے ہوں گے۔ مثال کے طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ جھوٹا شخص اپنے انٹرویو لینے والے سے آنکھیں نہیں ملاتا، اپنے ہاتھوں سے کھیلتا ہے، اسے پسینہ آتا ہے یا پھر بار بار تھوک نگل لیتا ہے۔

ان باتوں کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سچ بولنے والے انٹرویو میں بھی گھبرا سکتے ہیں اور جھوٹ بولنے والے شخص جیسا رویہ دکھا سکتے ہیں۔

جھوٹ بولنے والوں کو اپنی ساکھ کی زیادہ فکر ہوتی ہے، جبکہ سچ بولنے والوں کو یقین ہوتا ہے کہ سچ سامنے آئے گا۔

Getty Images

تاہم جھوٹ بولنے اور جھوٹ نہ بولنے والوں کے زبانی حربے مختلف ہیں۔ عام طور پر دونوں شروع ہی میں وہ تمام معلومات نہیں دیتے جو ان کے پاس ہوتی ہیں، کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ انھیں کتنی معلومات دینی ہیں۔

تاہم، جو لوگ سچے ہوتے ہیں وہ معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ دوسروں کے سامنے ان کی ایمانداری ظاہر ہے۔

ان میں بہت ساری معلومات دینے کے لیے ضروری محرک کی کمی بھی ہو سکتی ہے۔

جب حقیقت واضح ہے تو غیر متعلقہ تفصیلات دینے میں اتنی محنت کیوں کی جائے؟ اس کے علاوہ، وہ شروع شروع میں وہ سب کچھ یاد نہیں کر سکتے ہیں جو ان کے دماغ میں محفوظ ہے۔

مختلف حکمت عملیاں

جھوٹ بولنے والے افراد اپنی کہانیوں کو سادہ اور آسان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں جو کچھ وہ کہیں اس سے تفتیش کاروں کو تصدیق کرنے کا سراغ نہ مل جائے۔

وہ ڈرتے ہیں کہ بعد میں جب ان کا دوبارہ انٹرویو لیا جائے گا تو وہ اپنی کہی ہوئی ہر بات کو دہرانے کے قابل نہیں ہوں گے، یا یہ کہ ایک وسیع جھوٹ کے لیے بہت سوچ بچار کی ضرورت ہو گی۔

دھوکہ دہی پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف زبانی اشارے غیر زبانی اشارے سے زیادہ ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ کہ لوگ جھوٹ کا بہتر طریقے سے اس وقت پتا لگا سکتے ہیں جب وہ کسی کو بولتے ہوئے سنتے ہیں نہ کہ جب وہ اس کے رویے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

زیادہ تر انٹرویوز پروٹوکول، جیسا کہ جنھیں بارڈر گارڈز یا پولیس استعمال کرتے ہیں، محققین نے تیار کیے ہیں اور ان کا مقصد ان مختلف زبانی حکمت عملیوں کو سمجھنا ہے جو جھوٹے اور ایماندار لوگ انٹرویوز میں استعمال کرتے ہیں۔

پروٹوکول جو انٹرویو لینے والے عام طور پر منتخب کرتے ہیں ان کا انحصار ثبوت پر ہوتا ہے۔

Getty Images

اگر انٹرویو لینے والے کے پاس آزاد ثبوت ہیں (مثال کے طور پر، کوئی ای میل جس میں دکھایا گیا ہے کہ کسی نے کسی تقریب میں شرکت کی تھی) تو اس کا بہترین آپشن سٹریٹجک یوز آف ایویڈنس (SUE) ہے۔

یہ اس وقت ہوتا ہے جب انٹرویو لینے والے یہ ظاہر کیے بغیر ایونٹ کے بارے میں سوالات پوچھتے ہیں کہ ان کے پاس کیا ثبوت ہیں۔

وہ لوگ جو سچ بولتے ہیں اور ان کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا اس لیے وہ آزادانہ طور پر بات کریں گے اور تفصیلات پیش کریں گے، جبکہ جھوٹ بولنے والے افراد اس تقریب میں شرکت سے انکار کریں گے اور مخصوص معلومات دینے اور سوالات سے بچنے کی کوشش کریں گے۔

پیشہ ورانہ نقطہ نظر

بعض اوقات انٹرویو لینے والوں کے پاس ثبوت نہیں ہوتے لیکن انٹرویو دینے والا انھیں یہ فراہم کر سکتا ہے۔

وی اے (VA) انٹرویو کی تکنیک کا استعمال کرتے وقت، انٹرویو لینے والے انٹرویو دینے والوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ ثبوت فراہم کر سکتے ہیں جن کی تصدیق کی جا سکے۔

اس نقطہ نظر پر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ سچ بولتے ہیں وہ جھوٹ بولنے والوں کے مقابلے میں یہ ثبوت پیش کرتے ہیں (مثال کے طور پر ان دوسرے لوگوں کا ذکر جنھوں نے تقریب میں شرکت کی تھی)۔

تصور کریں کہ تفتیش کا موضوع یہ نہیں ہے کہ آیا انٹرویو لینے والے نے تقریب میں شرکت کی تھی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا وہ سچ کہہ رہا ہے یا نہیں کہ اس نے تقریب میں کسی اور کے ساتھ کیا گفتگو کی تھی۔

SUE اور VA تکنیک اس صورت حال کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ ایک ای میل جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نے ایونٹ میں شرکت کی ہے وہ ظاہر نہیں کرے گا کہ وہاں کیا ہوا۔

اگر انٹرویو لینے والے نے گفتگو ریکارڈ نہیں کی تو وہ قابل تصدیق معلومات پیش نہیں کر سکیں گے۔

اس صورت حال میں، کاگنیٹو کریڈیبلٹی اسیسمنٹ (سی سی اے) کا استعمال کیا جا سکتا ہے، جو کہ ایک انٹرویو پروٹوکول ہے جس میں صرف بیان کے معیار پر غور کیا جاتا ہے۔

سی سی اے انٹرویو میں، ابتدائی طور پر انٹرویو لینے والے سے کہا جاتا ہے کہ وہ رپورٹ کرے کہ مختصر وقت میں کیا ہوا ہے۔

اس کے بعد انٹرویو لینے والے کو اشارے دیے جاتے ہیں جو اس کے بارے میں توقعات کو بڑھاتے ہیں کہ اب کیا کہنا ہے مثال کے طور انھیں کسی ایسے شخص کی ریکارڈنگ سننے دیں جس میں وہ تفصیل بتا رہا ہو جو وہ سننا چاہتے ہیں)، بولنے کی حوصلہ افزائی کریں (یعنی ایسا تاثر دیں کہ انٹرویو لینے والا ان کی زندگی کی بہترین کہانی سن رہا ہے) یا انھیں یاد رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

سی سی اے انٹرویو میں، انٹرویو دینے والوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کہانی متعدد بار سنائیں۔ سی سی اے تکنیک پر تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سچ بولنے والے لگاتار جوابات کے دوران جھوٹے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اضافی معلومات پیش کرتے ہیں جو ان کی کہانی کو سادہ رکھتا ہے۔

یہ جاننا ناممکن ہے کہ کسی کے دماغ میں کیا معلومات ہیں۔ ابھی تک تو خیالات ذاتی ہیں کیونکہ ہمارے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ یہ جانیں کہ کوئی کیا سوچ رہا ہے۔

یہ شاید جھوٹ پکڑنے والی مشین سے کم دلکش ہو لیکن کسی کے کہے ہوئے الفاظ کو سننا ان کی ذہنی حالت کے بارے میں اس سے زیادہ ظاہر کر سکتا ہے جتنا شاید وہ بتانا چاہیں گے۔

(آلڈرٹ رج، برطانیہ کی یونیورسٹی آف پورٹسمتھ میں سوشل سائیکالوجی کے پروفیسر ہیں)

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More