بنگلہ دیش کے ایک سرکردہ اخبار کے ایک صحافی کو اشیائے خوردونوش کی قیمتیں ’جھوٹی‘ بتانے کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ان کی زیادہ قیمتوں کی رپورٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔
روزنامہ پروتھم الو کے شمس الزمان شمس گرفتاری کے ایک دن بعد عدالت میں پیش کیے گئے جہاں ان کی ضمانت مسترد کر دی گئی۔
ان کی رپورٹ پر، جو 26 مارچ کو ملک کے یوم آزادی پر شائع کی گئی تھی، الزام ہے کہ اس میں ’حکومت کو بدنام‘ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے گرفتاری کی مذمت کی ہے اور حکومت پر پریس کی آزادی کو سلب کرنے کا الزام لگایا ہے۔
حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے لیکن میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے 2009 سے برسراقتدار عوامی لیگ کے تحت آزادیوں میں مسلسل کمی کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے گذشتہ سال کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں سے بنگلہ دیش کو 162 ویں نمبر پر رکھا، جو روس اور افغانستان سے نیچے ہے۔
شمس الزمان جس اخبار کے لیے کام کرتے ہیں وہ بنگلہ دیش کا سب سے بڑا اور بااثر روزنامہ ہے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ کب تک جیل میں رہیں گے۔
بنگلہ دیش میں آزادیِ صحافت کو کچلنے کی کوششیںGetty Images
صحافی کو بدھ کی صبح ڈھاکہ سے باہر ان کے گھر سے سادہ لباس میں ملبوس اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
ان کے اخبار کے مالکان کو تقریباً 30 گھنٹے تک ان کے ٹھکانے کا کوئی پتہ نہیں تھا کیونکہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں کا کہنا تھا کہ انھیں ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
جس رپورٹ پر شمس الزمان کو حراست میں لیا گیا ہے اس میں عام بنگلہ دیشیوں کو یوم آزادی پر اپنی زندگیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
اس میں ایک مزدور نے کہا تھا: ’اگر ہم چاول نہیں خرید سکتے تو اس آزادی کا کیا فائدہ؟‘
یہ تبصرہ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی کرتا ہے، جو یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے پوری دنیا میں بڑھ گئی ہیں۔
پرتھم آلو کے مضمون کو لوگوں کی بڑی تعداد نے شیئر کیا۔ جب اخبار نے رپورٹ فیس بک پر پوسٹ کی تو اس میں ایک شخص کی غلط تصویر استعمال کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے
معاشی ترقی میں انڈیا کو پچھاڑنے والا بنگلہ دیش آئی ایم ایف سے مدد مانگنے پر کیوں مجبور ہوا؟
آزادی صحافت: عمران خان سمیت 37 سربراہان مملکت ’پریڈیٹرز آف پریس فریڈم‘ کی فہرست میں شامل
اخبار کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر سجاد شریف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک بار جب ہمیں غلطی کا احساس ہوا، تو ہم نے اسے فوری طور پر ہٹا دیا اور (ترمیم شدہ) رپورٹ کے ساتھ وضاحت جاری کر دی۔‘
’لیکن ہم اصل رپورٹ پر قائم ہیں۔ کھانے کی قیمت پر مزدور کا اقتباس حقیقی تھا۔‘
لیکن برسرِ اقتدار عوامی لیگ کے حامیوں نے اخبار پر ملک کی شبیہہ کو خراب کرنے کا الزام لگایا ہے۔
پولیس نے متنازعہ ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ ( ڈی ایس اے) کے تحت اخبار کے ایڈیٹر مطیع الرحمان کے ساتھ ساتھ اخبار سے منسلک ایک ویڈیو جرنلسٹ اور کئی دوسرے لوگوں کے خلاف بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
Getty Images
وزیر قانون انیس الحق نے کہا کہ شمس الزمان نے ’سنسنی پھیلانے کی نیت سے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مقدمہ حکومت نے نہیں بلکہ ایک فرد نے دائر کیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اخبار کے ایڈیٹر اور پبلشر پر بھی اس رپورٹ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور اسی وجہ سے پولیس ان سے بھی تفتیش کر رہی ہے۔
تازہ ترین پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انسانی حقوق کے محافظوں اور میڈیا کے اہلکاروں کو مبینہ طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
ڈھاکہ میں مغربی ممالک کے ایک گروپ کے ایک انیشی ایٹیو میڈیا فریڈم کولیشن نے پروتھم آلو کیس میں حراست سمیت صحافیوں پر تشدد اور دھمکیوں کی حالیہ رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بنگلہ دیشی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ ایسی رپورٹنگ نہ کریں جس میں شیخ حسینہ کی حکومت پر تنقید ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈی ایس اے نے خوف کا کلچر پیدا کر دیا ہے۔
میڈیا رائٹس گروپس کے مطابق، ڈی ایس اے کے 2018 میں نافذ ہونے کے بعد سے تقریباً 280 صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
وزیر قانون انیس الحق کا کہنا ہے کہ حکومت اس ایکٹ سے متعلق مسائل پر میڈیا ہاؤسز کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے خوف کو دور کرنے کے لیے ان (ایڈیٹروں) کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ ہم بہترین طریقوں کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ڈی ایس اے کو بہتر بنانا ہے تو ہم اس کے لیے قوانین بنائیں گے۔‘