انڈیا کے زیر انتظام کشمیر: ’25 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے، سوچتی ہوں اس سے روٹی خریدوں یا صابن کی ٹکیہ‘

بی بی سی اردو  |  Mar 27, 2023

BBCسارہ بیگم کو 30 سال پہلے ماہانہ تین روپے کے عوض عاجرہ گاؤں کے مڈل سکول میں خاکروب کی نوکری پر رکھا گیا تھا

’مہینے بھر صفائی ستھرائی کا کرتی ہوں، یہ کام کرتے ہوئے پورا جسم اور کپڑے گرد آلود ہو جاتے ہیں۔ اتنے مشکل کام کے بعد جب مہینے کے پہلی تاریخ کو صرف 25 روپے تنخواہ ملتی ہے تو سوچتی ہوں کہ اس کی ایک روٹی خریدوں یا صابن کی ایک ٹکیہ؟‘

یہ کہنا ہے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے ایک سرکاری سکول میں دہائیوں سے صفائی کا کام کرنے والی سارہ بیگم کا۔

آج سے لگ بھگ 30سال پہلے انھیں ماہانہ تین روپے کے عوض عاجرہ گاؤں کے مڈل سکول میں خاکروب کی نوکری پر رکھا گیا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’چند سال بعد یہ تنخواہ تین روپے سے بڑھا کر 25 روپے ماہانہ کر دی گئی اور اس کے بعد طویل خاموشی چھا گئی۔‘

BBCسارہ بیگم کے خاوند نابینا ہیں

سارہ بیگم ضلع بانڈی پورہ کی ان 500 سے زیادہ خواتین میں شامل ہیں جو ضلعے کے مختلف سکولوں میں گذشتہ کئی برسوں سے 25 روپے سے 75روپے ماہانہ کی اُجرت پر صفائی کا کام کرتی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ایسی خواتین کی تعداد 4000کے قریب ہے۔

سارہ بیگم کے خاوند نابینا ہیں۔ اُن کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک وفات پا چکے ہیں۔

’جو بیٹا بچا تھا وہ تو شادی کرکے الگ ہو گیا۔ جو چل بسا تھا اُسی کا یتیم بیٹا بھی میرے ساتھ ہے۔ وہ مزدوری کرتا ہے اور اب وہی ہم دونوں میاں، بیوی کا سہارا ہے، ورنہ 25 روپے میں زندگی کا بوجھ کون اُٹھا سکتا ہے؟‘

بانڈی پورہ کے ہی سونروانی گاؤں کی نِثارہ بیگم کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں۔ چند سال قبل حکومت کی جانب سے اُن کی تنخواہ 25 روپے سے بڑھا کر 75 روپے کر دی گئی تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرا خاوند چل بسا، پھر میرا جوان بیٹا بیمار ہو کر فوت ہو گیا۔ معذور بیٹی کے ساتھ اکیلی رہتی ہوں، میرا اس پیسے سے کیا ہو گا۔ میں سب سے ملی لیکن کسی نے (میری درخواست پر) غور نہیں کیا۔‘

BBCنِثارہ بیگم کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں، چند سال قبل حکومت کی جانب سے اُن کی تنخواہ 25 روپے سے بڑھا کر 75 روپے کر دی تھی

نِثارہ کے کئی رشتہ دار ہیں، اُن میں سے صرف ایک بھائی اُن کی کبھی کبھی مدد کرتے ہیں، جس سے ان کا گزر بسر چلتا ہے۔ ’وہ بے چارا بھی غریب ہے، اُس کی اپنی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔‘

سارہ اور نِثارہ کی طرح باقی سینکڑوں خواتین بھی قلیل اُجرت کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان میں سے بعض کو سماجی بہبود محکمے کی طرف سے ہر ماہ ایک ہزار روپے دیے جاتے ہیں لیکن ان کے ذہن پر اس بات کا دباؤ ہے کہ دہائیوں سے کام کرنے کے بعد بھی ان کی مہینے کی تنخواہ اتنی ہی ہے کہ مشکل سے چائے کا ایک کپ بن سکے۔

قلیل اُجرت پر خواتین سے کام لینے کی پالیسی؟ BBCنثارہ بیگم کی ایک بیٹی معذور ہے

ان خواتین کو محکمہ تعلیم نے 30 سال قبل ہنگامی بنیادوں پر انگیج کیا تھا لیکن دہائیاں گزرنے کے بعد بھی انھیں مستقل کیا جا رہا ہے اور نہ ہی تنخواہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کیا یہ ایک غیرانسانی پالیسی تھی؟بانڈی پورہ کے چیف ایجوکیشن افسر عبدالمجید ملک نے اس سوال کا جواب تو نہیں دیا تاہم وہ کہتے ہیں ’حکومت نے اب ایک پالیسی بنائی ہے کہ ان میں سے جو خواتین آٹھویں کلاس تک پڑھی ہوئی ہوں گی اُن کو مستقل کر دیا جائے گا لیکن یہ کوٹا بھی صرف پچاس فیصد ہے۔‘

عبدالمجید ملک کے مطابق سکولوں کی صفائی ستھرائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر خاکروب خواتین کو انگیج کرنے کی پالیسی پر کئی سال پہلے پابندی عائد کر دی گئی تھی جس کے بعد نئی خواتین کی بھرتیاں نہیں کی گئیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر محکمہ تعلیم کے بعض افسروں نے اعتراف بھی کیا کہ ان خواتین کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ انھیں ’لوکل فنڈز‘ سے تنخواہ دی جاتی تھی جو دو سے تین ہزار روپے بھی ہوتی تھی۔

عبدالمجید ملک نے بھی اس کی تصدیق کی اور کہا کہ ’چونکہ سرکاری سکولوں میں بچوں سے ہر مہینے باقاعدہ فیس لی جاتی تھی۔ اُسی فیس سے ان خواتین کو مناسب اجرت ملتی تھی لیکن یہ ہر جگہ ممکن نہیں تھا اور پھر حکومت ہند نے سرکاری سکولوں میں مفت تعلیم کا اعلان کیا تو فیس آنا بند ہو گئی، اسی لیے فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان کی کوئی مناسب تنخواہ مقرر نہ ہو سکی۔

BBCکم تنخواہ پر دہائیوں تک انتظار کیوں؟

سارہ بیگم اور نِثارہ بیگم اس سوال کے جواب میں کہتی ہیں کہ شروعات میں اُن کو یقین دلایا گیا تھا کہ چند سال کام کرنے کے بعد انھیں مستقل سرکاری نوکری ملے گی اور اُسی وعدے کی وجہ سے انھوں نے یہ کام چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا۔

سینیئر صحافی ہارون ریشی کہتے ہیں کہ مستقل نوکری کے لالچ میں لاکھوں کشمیریوں نے اپنی زندگی کے 20، 20 سال ضائع کیے ہیں۔

’اب یہ یہاں کا کلچر بن چکا ہے۔ چونکہ کشمیر کوئی صنعتی خطہ نہیں اور تجارت کے مواقع بھی محدود ہیں، اس لیے سرکاری نوکری یہاں روزگار کا سب سے بڑا اور محفوظآپشن ہے۔ محکمہ تعلیم میں ہی ایک پالیسی کے تحت ’رہبرِ تعلیم‘ تعینات کیے گئے تھے۔ وہ پڑھے لکھے نوجوان تھے جنھیں ماہانہ 1500 روپے ملتے تھے لیکن انھوں نے بھی نوکری چھوڑنے کی ہمت نہیں کی۔ یہی معاملہ ان خواتین کا رہا ہے۔‘

چیف ایجوکیشن افسر عبدالمجید ملک نے اس امید کا اظہار کیا کہ نئی پالیسی کے تحت بیشتر خواتین کا مسئلہ حل ہو جائے گا ’لیکن اس کے لیے بھی آٹھویں پاس ہونا لازمی ہو گا۔‘

اس نئی پالیسی کے حساب سے بیشتر خواتین کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ جب انھیں رکھا گیا تو کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں کیا گیا تھا اور انھیں فقط سکولوں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنا تھا۔

سارہ بیگم کہتی ہیں کہ ’عمر بھر انتظار کیا کہ یہ لوگ وعدہ پورا کریں گے۔ اب 30 سال بعد یہ کہیں گے کہ تمآٹھویںپاس نہیں ہو، اس لیے نوکری نہیں ملے گی۔آپ ہی بولو ، کیا یہ انصاف ہے؟‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More