’پھل صرف 10 روپے کلو‘: رعایتی قیمت پر فروٹ دینے کا سلسلہ تیسرے سال بھی جاری

بی بی سی اردو  |  Mar 25, 2023

BBC

دوپہر دو بجے سے ہی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے اور سب کی نظریں آسمانی رنگ کے تنبو پر تھیں جس کے باہر بڑے بڑے الفاظ میں ’پھل صرف 10 روپے کلو‘ تحریر تھا۔

یہ ماہ رمضان کا دوسرا روز تھا۔ پہلے روز ہی سوشل میڈیا پر رعایتی نرخ پر پھلوں کی فروخت کی اتنی تشہیر ہوئی کہ لوگوں کا جمع گفیر امڈ آیا، ہر کوئی سوال کر رہا تھا کہ کتنے بجے پھل بیچنا شروع کریں گے۔

کراچی کے نوجوان مصطفی حنیف نے دو سال قبل پھلوں کی رعایتی قیمتوں پر فروخت کا سلسلہ شروع کیا تھا جو رواں سال تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہے۔ مصطفی حنیف خیراتی کام کے ساتھ ساتھ یوٹیوب پر بھی کافی ایکٹیو ہیں۔

کیلے، خربوزے اور سیبوں سے لدی ہوئی ایک سوزوکی پک اپ آکر اس تنبو کے باہر رُکی۔ رضاکاروں نے اس میں سے پھل کی پیٹیاں اُتار کر تنبو میں رکھیں جنھیں دیکھ کر لوگوں کو اطمینان ہوا کہ پھل آ گیا ہے۔

مصطفیٰ حنیف کے مطابق تین سال قبل انھوں نے سوچا کہ رمضان میں ایسی کون سی چیز ہے جو سب سے زیادہ فراہم کی جائے تاکہ لوگوں کو آسانی ہو۔ تو اس میں فروٹ کا خیال آیا جس کے بعد انھوں نے دس روپے کلو کے حساب سے تقسیم شروع کی اور سوچا ’مفت میں نہ دیا جائے تاکہ لوگوں کی خودداری بھی متاثر نہ ہو اور وہ اپنے بھرم سے فروٹ لے کر جائیں اور گھر میں فروٹ کھائیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ذاتی زندگی میں تو ایسا کوئی واقعہ نہیں لیکن عام زندگی میں جب فروٹ کی ریڑھی سے گزرتے ہیں تو ایک بار سوچنا پڑتا ہے کہ اس کے نرخ اتنے زیادہ ہیں۔ اگر ہم یہ سوچتے ہیں تو یہ سوچ سب کی ہے۔‘

BBCتنبو کے باہر لوگوں کی قطار جو سستے پھل کے انتظار میں ہیں’بیٹیوں نے کہا کہ افطار میں پھل کھانا ہے‘

مصطفیٰ حنیف بتاتے ہیں کہ ان کے سٹال سے یکم رمضان کو 400 سے زیادہ افراد اپنے خاندانوں کے لیے پھل لے کر گئے، اگلے روز انھوں نے زیادہ آرڈر کیا اور چھ، سات سو لوگ اس سے مستفید ہوئے۔

فروٹ کی تقسیم سے قبل لوگوں کو قطار میں ٹوکن تقیسم کیے جاتے ہیں اور وہ یہ ٹوکن سٹال پر دے کر فروٹ لیتے ہیں۔

مصطفیٰ حنیف کے مطابق جو پہلے آئے گا اور قطار میں موجود ہوگا اسے پھل ملیں گے، جتنے بیگس بنتے ہیں اتنے لوگوں کو ٹوکن فراہم کرتے ہیں۔ ’ایک تھیلی میں تین کیلے، ایک سیب اور ایک خربوزہ شامل ہوتا ہے۔ دو کلو کے قریب وزن کے اس فروٹ سے پانچ سے چھ افراد باآسانی فروٹ چاٹ یا فروٹ کھا کر روزہ افطار کرسکتے ہیں۔‘

پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے مزار سے نصف کلومیٹر دور جیل روڈ پر بائی پاس کے نیچے فٹ پاتھ پر یہ سٹال لگایا گیا ہے۔ یہاں قطار میں کھڑے لوگوں میں مزدور، نجی سکیورٹی کمپنیوں کے ملازمین سمیت پردہ پوش خواتین بھی شامل تھیں۔

رمضان کے چاند کا دیر رات اعلان: چاند کی پیدائش پر سائنس کیا کہتی ہے؟

پاکستانی ’بیرونِ ملک ٹیکسی چلانے کو ملک میں رہنے پر ترجیح‘ کیوں دے رہے ہیں؟

BBC

زینب بی بی (فرضی نام) ہاتھ میں فروٹ کی تھیلی لیے کھڑی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ دوپہر بارہ بجے سے یہاں کھڑی تھیں اور فروٹ لینے میں کامیاب ہوگئیں حالانکہ ’دھکم پیل میں وہ گِر بھی گئی تھیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر وفات پا چکے ہیں۔ ’نو سال تک پولیو ویکسینیٹر کے طور پر کام کیا۔ اب بیمار ہوں سولہ اور سترہ سال کی دو بچیاں ہیں۔ انہوں نے کہا روزہ ہے، فروٹ کھانا ہے۔ میں یہاں آگئی اور یہ فروٹ لیا۔ اب کل بھی آؤں گی۔‘

مزدور محمد الیاس نے کہا اگر یہ فروٹ عام بازار سے لیں تو تین سو رپے سے زیادہ لگ سکتے ہیں۔ مگر یہاں اس کی خریداری کے لیے انھوں نے 20 روپے ادا کیے ہیں۔

اسی طرح عمر خان نے بتایا کہ ’مہنگائی ہے، ہر کوئی فروٹ افورڈ نہیں کرسکتا۔ اس لیے ہم یہاں آئے ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ دور سے آئے ہیں، ان کا پیٹرول لگ رہا ہے۔ انھیں فائدہ نہیں ہے، فائدہ صرف آس پاس کے لوگوں کو ہے۔‘

BBCرواں سال ’عطیات میں کمی آئی‘

مصطفیٰ حنیف کا اپنے ہی نام سے ٹرسٹ موجود ہے۔ عطیات جمع کر کے وہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

ان کے بقول گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس عطیات میں کمی آئی ہے لیکن پھر بھی لوگ اس مشن کو جاری رکھنے کے لیے مدد کر رہے ہیں۔ ’کوئی سو روپے تو کوئی پانچ سو سے ہزار روپے دیتا ہے۔ کوئی پورے دن کا خرچہ اٹھا لیتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’رواں رمضان میں جو پھل یومیہ ایک لاکھ 76 ہزار روپے کی مالیت کے لائے ہیں گذشتہ سال اسی مقدار کے پھل 90 سے 95 ہزار میں خرید لیتے تھے۔ تقریباً ڈبل کا فرق آگیا ہے اور جیسے جیسے دن بڑھیں گے، قیمتیں بڑھتی جائیں گی۔‘

رضاکاروں کی مدد سے تین گھنٹوں میں پیک کیے گئے یہ پھل صرف ایک گھنٹے میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور کئی لوگوں کو خالی ہاتھ جانا پڑتا ہے۔

جمعے کے دن یہ خیمہ انسانوں کے گھیرے میں رہا۔ آخر میں کچھ لوگ زبردستی داخل ہو کر پھل لے گئے باوجود اس کے کہ ایک مسلح محافظ بھی موجود تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More