سمیع چوہدری کا کالم: ’اصغر افغان کا ادھورا خواب پورا ہوا‘

بی بی سی اردو  |  Mar 25, 2023

پاک افغان کرکٹ مقابلوں کی تاریخ بہت طویل نہیں مگر پچھلے چند برس میں جب جب دونوں ٹیمیں مدِ مقابل آئی ہیں، مقابلہ کانٹے دار ہوا ہے اور جذبات بلند تر رہے ہیں۔

ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2021 کے سپر 12 میچ میں اختتام کی جانب بڑھتے ایک ایسا لمحہ آیا جہاں افغانستان فتح کے عین دہانے پہ آ گیا۔ پاکستان کو فتح کے لیے دو اوورز میں 24 رنز درکار تھے۔

آصف علی کریز پر موجود تھے اور وہ یک لخت افغان امیدوں کو یوں مسمار کر گئے کہ باقی ماندہ رنز انھوں نے 19ویں اوور میں ہی چار چھکے لگا کر حاصل کر لیے اور افغانستان فتح کے پاس آ کر بھی غچہ کھا گیا۔

اصغر افغان اس شکست کو دل پہ لے گئے اور ٹورنامنٹ کے بیچوں بیچ ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر ڈالا۔ ان سے پہلے 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں گلبدین نائب بھی پاکستان کے خلاف بلند تر عزائم سے میدان میں اترے تھے مگر ان کا خواب بھی تشنۂ تکمیل رہ گیا تھا۔

اور پھر پچھلے برس کا ایشیا کپ تو سبھی یادوں میں تازہ ہے جب ایک بار پھر آصف علی ہی پاکستانی امیدوں کا محور ہو رہے تھے لیکن ان کے آؤٹ ہوتے ہی جب افغان آنکھوں میں شمعیں چمکنے کو تھیں کہ نسیم شاہ کریز پر آئے اور اپنے دو یادگار چھکوں سے انھوں نے افغان امیدوں کے محل مسمار کر دیے۔

Getty Images

پاکستان کے خلاف فتح ہر دور کے افغان کرکٹرز کا خواب رہا ہے۔ اگرچہ اپنی محدود سی انٹرنیشنل تاریخ میں اس سے پہلے دونوں ٹیموں نے باضابطہ دو طرفہ کرکٹ نہیں کھیلی ہے مگر علاقائی و بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں جب جب دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوئی ہیں، افغان ٹیم نے ہمیشہ جاندار کرکٹ کھیلی ہے۔

مگر شاید یہ اپ سیٹ ممکن ہی تب تھا کہ میزبانی افغان کرکٹ بورڈ کے ہاتھ ہوتی اور کنڈیشنز پہ مکمل اختیار بھی انہی کو ہوتا۔

شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کی پچ عموماً بلے بازوں کے لیے زرخیز رہا کرتی ہے۔ اس پچ میں اکثر وہ دمک نظر آتی ہے جو سیمنٹ وکٹوں کا خاصہ ہوتی ہے۔ جب ایسی دمک ہو تو باؤنس متناسب ہوتا ہے اور گیند کھل کر بلے پہ آتی ہے۔

مگر یہاں افغانستان نے اپنی میزبانی کے اختیارات سے استفادہ کرتے ہوئے وہ پچ تشکیل دی جو بلے بازوں کے لیے کسی بارودی سرنگ سے کم نہیں تھی۔ پہلے پاور پلے میں ہی اس پچ پہ وہ دُھول اڑتی نظر آئی جو ٹیسٹ میچ میں پانچویں سہہ پہر کی پچ پہ دیکھنے کو ملتی ہے۔

راشد خان یوں بھی خوش قسمت رہے کہ شاداب خان نے ٹاس جیتتے ہی جھٹ بیٹنگ کا فیصلہ کر لیا اور یوں کنڈیشنز کی آگہی حاصل کرنے کے لیے افغان بیٹنگ لائن کو پورے 20 اوورز میسر آ گئے۔

جب تک نوآموز پاکستانی بلے باز یہ ادراک کر پاتے کہ یہ وکٹ اونچے شاٹ کھیلنے کو موزوں نہ تھی، وہ پویلین لوٹ چکے تھے۔ یہاں بقا کا واحد رستہ فیلڈ کے ڈھکے چھپے کونوں کھدروں میں کھیل کر وکٹوں کے بیچ دوڑ لگانا تھا۔

Getty Images

افغان سپنرز کی عظمت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ آئی سی سی کی بولنگ رینکنگ کے ٹاپ ٹین میں بھی تین افغان نام جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ یہ اس کوالٹی کے سپنرز ہیں کہ کنڈیشنز کیسی بھی ہوتی، ناتجربہ کار پاکستانی بلے بازوں کو سوا سیر ہی ثابت ہوتے کجا کہ یہ کنڈیشنز جو تھیں ہی سپن کی جنت کے مترادف۔

پاکستانی بولنگ بہرحال لائقِ تحسین تھی کہ اس قدر حقیر مجموعے کے دفاع میں بھی اننگز کے بیشتر حصے میں نہ صرف سنسنی برقرار رکھی بلکہ امکانات کا دائرہ بھی وسیع تر کئے رکھا۔ لیکن بحیثیتِ مجموعی، یہ کنڈیشنز کے اعتبار سے بھی کوئی مسابقتی مجموعہ نہیں تھا۔

اگرچہ احسان اللہ کا سپیل شروع ہوتے ہی وہ لمحہ آیا جہاں سب تخمینے تہہ و بالا ہونے کا قوی امکان تھا مگر محمد نبی کے تجربہ کار ہاتھ بروئے کار آئے اور ان کے مدافعتی حصار نے پاکستانی پیس اٹیک کی یلغار کے سامنے بند باندھ دیا۔

ڈیڑھ برس پہلے جس دل شکستگی نے اصغر افغان کو ریٹائرمنٹ پہ مجبور کیا تھا، محمد نبی کے تجربے نے اسے پلٹ دیا اور یقینی بنایا کہ ان سنسنی خیز مقابلوں میں مزید حیرت ان کی ٹیم کا نصیب نہ ہو۔

بالآخر راشد خان کی ٹیم نے انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کو پچھاڑ کر ٹی ٹوئنٹی کے کامیاب ترین کپتان اصغر افغان کا وہ خواب پورا کر دیا جو پاکستان کے خلاف جیت بِنا ادھورا رہ گیا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More