بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان ’دوستی‘ تیل پائپ لائن منصوبے سے کس ملک کو زیادہ فائدہ ہو گا؟

بی بی سی اردو  |  Mar 18, 2023

Getty Imagesبنگلہ دیش اور انڈیا کے وزرائے اعظم شیخ حسینہ اور نریندر مودی

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے سنیچر کو دونوں ممالک کے درمیان دوستی تیل پائپ لائن کا افتتاح کردیا ہے۔ یہ افتتاح ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کیا گا۔ یہ بنگلہ دیش کے ساتھ انڈیا کا پہلا تیل پائپ لائن کا منصوبہ ہے۔

یہ پائپ لائن 377 کروڑ روپے کی لاگت سے بنائی گئی ہے جس میں بنگلہ دیش کے حصے میں آنے والی پائپ لائن پر 285 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔ انڈیا کی حکومت نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اس پائپ لائن کی صلاحیت 10 لاکھ میٹرک ٹن سالانہ ہے۔ اس سے شمالی بنگلہ دیش کی سات ریاستوں کو ہائی سپیڈ ڈیزل پہنچایا جائے گا۔ اس پائپ لائن کا افتتاح اگرچہ مارچ کے مہینے میں ہو رہا ہے لیکن اس کا اصل کام جون کے مہینے میں شروع ہوگا۔

سرحد پار پائپ لائن انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں واقع نوملی گڑھ ریفائنری لمیٹڈ (این آر ایل) کے مارکیٹنگ ٹرمینل سے بنگلہ دیش پیٹرولیم کارپوریشن (بی پی سی) پاربتی پور ڈپو تک ڈیزل لے جائے گی۔

انڈیا کے لیے بنگلہ دیش اس کا اہم پڑوسی اور دوست ملک ہے۔ سنہ 2021- 2022 میں، بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا اور ایشیا میں انڈیا کی برآمدات کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک تھا۔

اب تک بنگلہ دیش میں تیل انڈین ریلویز کے ذریعے بھیجا جاتا تھا اور اس سے آگے سڑک کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔ لیکن اب اس پائپ لائن کے شروع ہونے کے بعد بنگلہ دیش کے روڈ کے ذریعے مال برداری پر ہونے والے اخراجات بچ جائیں گے۔

انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات سے انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں کو فائدہ ہوگا۔

Getty Imagesفائل فوٹوکسے فائدہ ہوگا؟

شمال مشرقی ریاستیں جیسے تریپورہ، آسام اور میگھالیہ کو بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان ایسے منصوبوں سے فائدہ پہنچا ہے۔ یہ تین ریاستیں شمال مشرق میں بنگلہ دیش سے درآمد شدہ سامان کا ذریعہ ہیں۔

اس بات کو محسوس کرتے ہوئے گذشتہ چند سالوں میں دونوں ممالک کی حکومتوں نے بہت سے نئے منصوبے شروع کیے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے رابطوں کو بڑھایا جا سکے اور سرحدوں کو مزید کھولا جا سکے۔

کئی مواقع پر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے انڈیا کو چٹوگرام اور مونگلا بندرگاہوں کو استعمال کرنے کی دعوت دی ہے، جس سے بنگلہ دیش اور شمال مشرقی ریاستوں آسام اور تریپورہ کے درمیان سامان کے نقل و حمل میں بہتری آئی ہے۔

میتری سیتو (یعنی دوستی کا پل) کو سنہ 2021 میں دونوں ممالک کے درمیان نقل و حمل کو بہتر بنانے کے لیے بنایا گیا تھا، جو تریپورہ کی سربھومی کو بنگلہ دیش کے رام گڑھ سے جوڑتا ہے، دونوں ممالک کو ریل لائنز کے ذریعے بھی جوڑا گیا ہے۔

دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور بین الاقوامی امور کے ماہر ایس ڈی مونی کا کہنا ہے کہ ’رابطے کے لحاظ سے یہ ایک اہم منصوبہ ہے، جس کا براہ راست فائدہ بنگلہ دیش کو پہنچے گا، اس سے نہ صرف ان کے لیے انڈیا سے تیل لینا سستا ہو جائے گا بلکہ انھیں تیل تیز رفتاری سے بھی ملے گا جو وہاں کی صنعت کے لیے بہتر ہوگا۔‘

آنے والے وقتوں میں بنگلہ دیش کو اپنی توانائی کے تحفظ اور پائیدار توانائی کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔ روس یوکرین جنگ کے بعد توانائی کا تحفظ دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ ایسے وقت میں بنگلہ دیش کے ساتھ انڈیا کا پاور کوریڈور ایک مثبت شروعات ہے۔

ڈھاکہ میں مقیم بی بی سی بنگلہ سروس کے نامہ نگار اکبر حسین عوامی پارٹی اور ملک کی سیاست پر کافی عرصے سے کوریج کر رہے ہیں۔

اس پائپ لائن کے حوالے سے بنگلہ دیش میں کیا ہو رہا ہے؟ وہاں کے عام لوگ اسے کیسے دیکھ رہے ہیں؟

ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اکبر حسین کہتے ہیں: ’یہ درست ہے کہ اس منصوبے میں بنگلہ دیش کو فائدہ پہنچے گا، لیکن ایک طبقہ یہ بھی مانتا ہے کہ اس سے انڈیا کا فائدہ ہے۔ وہ روس اور ایران سے سستے داموں تیل خرید کر بنگلہ دیش کو اونچے نرخوں پر فروخت کررہا ہے۔

’صرف چھ ماہ قبل ہی شیخ حسینہ کی حکومت نے ملک میں ایندھن کی قیمتوں میں اچانک 50 فیصد اضافہ کر دیا تھا۔ بنگلہ دیش میں انڈیا مخالف جذبات اتنے زیادہ ہیں کہ لوگ اس طرح کی سرمایہ کاری کو نظر انداز کر کے بنگلہ دیش کی اندرونی سیاست میں انڈیا کی مداخلت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔‘

کیا چین کی وجہ سے انڈیا سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے؟

تاہم انڈیا کی جانب سے اس تیزی سے بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کو بنگلہ دیش میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کی عینک سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاست میں انڈیا ہمیشہ سے اہم رہا ہے لیکن گذشتہ دو دہائیوں میں چین نے بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔

دی ڈپلومیٹ ميگزن نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت بنگلہ دیش میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان 27 سے زائد سرمایہ کاری اور قرض کے معاہدے ہیں، جن کی مالیت 24 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس سے قبل چین نے بنگلہ دیش میں بنگلہ دیش میں 13 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔

اس سرمایہ کاری نے انڈیا کو بے چین کر دیا اور انڈیا نے سنہ 2017 میں بنگلہ دیش کو پانچ ارب ڈالر کا قرضہ بھی دیا۔ انڈیا کی طرف سے بنگلہ دیش کو دیا جانے والا یہ قرض سب سے بڑا قرض تھا۔‘

ماہرین کے ایک حلقے کا خیال ہے کہ چین اور انڈیا کی دشمنی سے سب سے زیادہ فائدہ اگر کسی ملک کو ہوا ہے تو وہ بنگلہ دیش ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان بنائے گئے ’فرینڈشِپ برِج‘ کی کیا اہمیت ہے؟

بنگلہ دیش میں بھاری سرمایہ کاری کے پیچھے چین کے کیا ارادے ہیں؟

حالانکہ ایس ڈی منی اس سے پوری طرح متفق نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف انڈیا ہی کیوں نیپال، بھوٹان سبھی اپنے اپنے طریقے سے ان کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اپنے ملک میں سرمایہ کاری بڑھا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’بنگلہ دیش میں ہندوستان کی سرمایہ کاری کو صرف چین کے نقطہ نظر سے دیکھنا درست نہیں ہے۔ یہ کافی حد تک درست ہے، لیکن انڈیا کے نقطۂ نظر سے اسے شمال مشرق، خلیج بنگال اور بحر ہند کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ پڑوسی ہونے کا عنصر بہت اہم ہے۔‘

'بنگلہ دیش میں انڈیا کی سرمایہ کاری صرف چین کے ساتھ بااثر رہنے کی جنگ نہیں ہے۔ اگر چین نہ ہوتا تو بھی یہ شمال مشرق ہوتا۔ یہاں کئی منصوبے ہیں جو بنگلہ دیش کو انڈیا کے اس حصے سے ریلوے لائنز اور دریائی راستوں کے ذریعے جوڑتے ہیں۔ بڑی تصویر دیکھیں تو ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں کو فائدہ ہوگا۔ بنگلہ دیش کو اس پروجیکٹ سے فائدہ ہوگا، لیکن دونوں ممالک کے مفاد کو صرف ایک پروجیکٹ کے تحت ہی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔‘

کیا اس طرح کے منصوبے شیخ حسینہ کو انتخابات میں مدد کریں گے؟

بنگلہ دیش میں اگلے سال جنوری میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ وہاں گذشتہ 15 سالوں سے برسراقتدار ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاست میں انڈیا بااثر کردار ادا کرتا رہا ہے، لیکن کیا دونوں کے تعلقات اور اس نئے اقدام سے وہاں کے انتخابات کو متاثر کریں گے؟

اکبر حسین کا کہنا ہے کہ 'بنگلہ دیش کی سیاست میں شیخ حسینہ کی پوزیشن پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کہ یہ پائپ لائن شروع ہوگی یا نہیں۔ وہ 2009 کے انتخابات کے بعد سے پچھلے 14 سالوں سے آرام سے حکومت کر رہی ہیں۔ کیونکہ انھیں انڈیا کی حمایت حاصل ہے۔

’یہاں کی سیاست میں انڈیا کی مداخلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سنہ 2014 میں جب کئی جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ملک میں سیاسی بحران گہرا ہونا شروع ہوا تو اس وقت کی انڈین سیکرٹری سجاتا سنگھ بنگلہ دیش کے دورے پر تھیں۔

انھوں نے ایک بیان دیا کہ اگر یہ انتخابات نہ ہوئے تو ملک اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ اس وقت لوگوں کو خدشہ تھا کہ انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں لیکن انتخابات ہوئے اور عوامی لیگ برسراقتدار آ گئی۔‘

بہر حال ایس ڈی مونی کا ماننا ہے کہ اس طرح کی شراکت داری بنگلہ دیش کی اندرونی سیاست میں شیخ حسینہ کی شبیہ کو بہتر بنائے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سب جانتے ہیں کہ شیخ حسینہ کی حکومت کو انڈیا کی حمایت حاصل ہے۔ اور انڈیا ان کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری مدد فراہم کرے گا۔ اس ڈیل کو دکھا کر شیخ حسینہ اپنے ملک میں یہ کہہ سکتی ہیں کہ انڈیا نہ صرف آزادی کے وقت بلکہ اس وقت بھی ہمارے مفاد کے لیے کھڑا ہے اور عوامی لیگ کی حکومت بنگلہ دیش کی معیشت کے لیے کام کر رہی ہے۔

لیکن اکبر حسین کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ کو ایسے کسی معاہدے یا افتتاح کے اثر سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں ایک بڑا طبقہ یہ مانتا ہے کہ اگر ملک میں انتخابات منصفانہ نہیں ہوئے تو شیخ حسینہ کے لیے انتخابات میں اس کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ اگرچہ شیخ حسینہ یہ چاہتی ہیں کہ وہ اس طرح کے منصوبوں کے ذریعے یہ دکھائيں کہ وہ انڈیا کے ساتھ بہتر تعلقات کے ذریعے بنگلہ دیش کے مفاد کی خدمت کر رہی ہیں۔‘

تاہم اکبر حسین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں 2009 کے بعد سے انتخابات جمہوری طریقے سے غیرجانبدارانہ انداز میں نہیں ہوئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’عام بنگلہ دیشی آپ کو یہ کہتے ہوئے سنائی دیں گے کہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو شیخ حسینہ سے زیادہ آزادی ہے، جو بڑے پیمانے پر مداخلت کے بغیر اپنے ملک میں اپنی ریاست کی حکومت چلاتی ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More