BBCسیلابی پانی کی نکاسی نہ ہونے کے بعد اب مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت سٹرک بنا رہے ہیں
لگ بھگ دو کلومیٹر طویل کچی سڑک ہے۔ مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت چندہ جمع کر کے اس سڑک کو بنوا رہے ہیں۔ جس جگہ مٹی ڈال کر یہ سڑک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہاں پہلے ایک پکی سڑک ہوا کرتی تھی۔ وہ سنہ 2022 کے سیلاب اور بارشوں کے پانی کے نیچے آ گئی۔
یہ منظر صرف ایک سڑک کا ہے لیکن کہانی صوبہ سندھ کے کئی علاقوں کی ہے۔
مقامی افراد اس لیے یہ سڑک بنوا رہے ہیں کہ چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس سڑک اور آس پاس کے علاقے سے سیلابی پانی نہیں نکالا جا سکا ہے۔ سڑک کے ڈوب جانے کی وجہ سے سکول آنے جانے والے بچے اب کشتی استعمال کرتے ہیں۔
اس صورتحال کے باعث ٹھری میرواہ کے رہائشیوں کا دو منٹ کا فاصلہ اب آدھے گھنٹے میں طے ہوتا ہے اور سیلابی پانی اب تک ان کے سکولوں اور گھروں کے اندر کھڑا ہے۔
یہی حال صوبہ سندھ میں بہت سے ان علاقوں کا ہے جو سیلاب اور بارشوں کے پانی میں ڈوب گئے تھے۔ یہاں پانی جوں کو توں کھڑا ہے۔ اگرچہ دریائے سندھ ان علاقوں کے بہت قریب سے گزرتا ہے اور اس سیلابی پانی کا نکاس اس دریا میں ہو سکتا تھا مگر ایک عرصہ گزرنے کے باوجود یہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
تو ایسا ہوا کیوں نہیں؟ ٹھری میرواہ میں اس زیرِ تعمیر کچی سڑک پر کھڑے ہو کر آپ کو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ اس سڑک کے دونوں اطراف کئی کلومیٹر پر پانی موجود ہے۔ اس کی مشرقی سمت میں چند کلومیٹر آگے مہران ہائی وے ہے۔
BBC
مہران ہائی وے انتہائی اچھی حالت میں ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اونچی ہے اور اس کے نیچے نکاسی آب کے لیے پُل بنائے گئے ہیں۔ سیلابی اور برساتی پانی ان پلوں کے نیچے سے گزر کر ہائی وے کے دوسری طرف بھی کئی کلومیٹر دور تک چلا گیا ہے۔
اگر آپ اس علاقے کا فضائی جائزہ لیں تو آپ کو میلوں تک موجود پانی میں اس سڑک اور ہائی وے کی دو پتلی سی لکیریں نظر آئیں گی۔
علی مردان ٹھری میرواہ کے رہائشی ہیں اور سماجی کاموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ مقامی افراد نے تین ماہ قبل اس وقت یہ سڑک بنانے کا فیصلہ کیا تھا جب ان کی طرف سے کئی درخواستوں کے جواب میں انتظامیہ اس علاقے سے پانی نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
اس سیریز کی دیگر اقساط
پاکستان میں 2022 کے سیلاب کا ذمہ دار کون: گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا کیا کردار ہے؟
پاکستان میں 2022 کا سیلاب: کیا سوات میں دریا پر بنی تجاوزات تباہی کا سبب بنیں؟
سنہ 2022 کا سیلاب: کیا پنجاب میں ہونے والے نقصان سے بچا جا سکتا تھا؟
'اب تک ہمارا لگ بھگ 16 لاکھ روپے خرچ آ چکا ہے اس سڑک پر۔ ہم نے مخیر حضرات سے اپیل کی تھی کہ وہ کچھ پیسے دیں ہمیں۔ اب بھی لگ بھگ 300 میٹر کا حصہ باقی ہے جس پر مٹی ڈالنا ہو گی۔ تب جا کر یہاں سے ٹھری میرواہ شہر کی طرف راستہ بحال ہو گا۔‘
لیکن ٹھری میرواہ میں یہ پانی آیا کہاں سے؟BBCعلی مردان: ’میری بھابھی کی موت ہوئی، ہم ان کو اپنے قبرستان میں دفن نہیں کر سکے‘
علی مردان نے مجھے بتایا کہ یہ زیادہ تر بارشوں کا پانی تھا۔ جس جگہ پر یہ کھڑا ہو گیا یہ زمیں قدرے نشیب میں ہے۔ صدیوں پہلے یہ جگہ دریائے ہاکڑہ کی گزرگاہ ہوا کرتی تھی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ لیکن زیادہ پانی یہاں اس وقت آیا جب یہاں سے کچھ فاصلے پر چند وڈیروں نے وہ ڈیم توڑے جو انھوں نے اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے خود سے بنا رکھے تھے۔
’وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے کچھ فاصلے پر موجود ایک نہر کو کٹ لگوا دیا۔ ہمیں جب پتا چلا تو ہم گئے تھے اُن کے پاس۔ ان سے کہا کہ سائیں ہم ڈوب جائیں گے۔ انھوں نے ہماری بات نہیں مانی۔ پولیس آ گئی، پولیس نے ہمیں وہاں سے نکال دیا۔‘
علی مردان کہتے ہیں رات کے دو بجے تھے جس وقت نہر سے پانی ٹھری میرواہ کے اس علاقے کی طرف آ گیا۔ یہ پانی گھروں میں گھس گیا، سرکاری سکول بنے ہوئے تھے وہ ڈوب گئے، اس علاقے کا قبرستان پورا پانی کے نیچے آ گیا۔
’میری بھابھی کی موت ہوئی، ہم ان کو اپنے قبرستان میں دفن نہیں کر سکے۔ یہاں سے کئی کلومیٹر دور انھیں کسی دوسرے قبرستان میں جا کر دفن کرنا پڑا۔ بہت سی اموات ہوئی ہیں ہمارے علاقے میں۔‘
علی مردان اور ان کے علاقے کے دوسرے لوگوں کو ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ پانی اگر اس طرف آ گیا تو اس کو نکالنا مشکل ہو جائے گا۔
اب تک پانی نکل کیوں نہیں پایا؟BBC سڑک کے ڈوب جانے کی وجہ سے سکول آنے جانے والے بچے اب کشتی کا استعمال کرتے ہیں
آئندہ آنے والے دنوں میں علاقے کے لوگوں کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ علی مردان بتاتے ہیں کہ انھوں نے سول انتظامیہ کو کئی مرتبہ درخواستیں دیں کہ پانی کے یہاں سے نکالنے کا بندوبست کیا جائے لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ انھوں نے عدالت سے بھی رجوع کیا لیکن اس کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ کا موقف ہے کہ پانی نے یہاں جو نقصان کرنا تھا وہ تو ہو گیا اور اب اگر وہ اس کی نکاسی کسی دوسرے علاقے کی طرف کریں گے تو اُس علاقے کا بھی نقصان ہو گا۔
’لیکن ہم کہتے ہیں کہ اس کو یہاں سے آگے ایک نہر ہے اس میں پھینکا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے یہاں سے پانی کو پمپ کر کے نہر میں ڈالنا پڑے گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ تقسیم سے پہلے اس نہر کے نیچے پائپ لگا کر پانی کی نکاسی کا انتظام بنایا گیا تھا۔ ’لیکن اس طرف بھی وڈیروں نے وہ پائپ بند کر دیے۔ اس طرح یہاں جمع ہونے والے پانی کو نیچے دریائے سندھ میں ڈالا جاتا تھا وہ قدرتی راستہ بند ہو گیا۔‘
اس صورتحال میں لگتا یہی ہے کہ یہاں لوگوں کو قدرتی طور پر اس پانی کے خشک ہونے کا انتظار کرنا ہو گا جس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ اگر سنہ 2023 میں دوبارہ برسات میں بارشیں زیادہ ہوئیں تو یہاں پانی کی سطح دوبارہ بڑھ جائے گی۔
لیکن علاقہ بھی تو نشیبی ہے، پانی کہاں نکالا جائے؟
اگر پکی سڑک موجود ہوتی تو میں دو منٹ میں ٹھری میرواہ شہر میں داخل ہو جاتا۔ لیکن مجھے کئی کلومیٹر کا سفر کر کے ایک لمبے راستے سے وہاں پہنچنا پڑا۔
شہر کے مضافاتی علاقوں میں بھی پانی کئی عمارتوں میں اب تک کھڑا ہے۔ ان میں بچوں کے سرکاری سکول بھی ہیں جو کئی ماہ سے بند پڑے ہیں۔ مین بازار میں جہاں بارشوں کا پانی کئی کئی فٹ تک جمع ہو گیا تھا وہاں اب تک سڑکوں کا نام و نشان نہیں ہے۔
مقامی افراد بتاتے ہیں کہ کئی دن لگاتار بارشیں ہونے کے بعد شہر کے کئی علاقے زیرِ آب آ گئے تھے۔ اس وقت انتظامیہ نے عارضی طور پر ایک پائپ لائن بچھا کر پانی کو شہر میں سے گزرنے والی ایک نہر میں ڈالا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سنہ 2014 میں ٹھری میرواہ کے شہری علاقے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا تھا جس کا مقصد نشیبی علاقوں سے پانی کی نکاسی تھا۔ وہاں نصب بورڈ پر لکھی اطلاعات کے مطابق اس پر دو کروڑ روپے لاگت آئی تھی۔
تاہم مقامی افراد نے مجھے بتایا کہ یہ منصوبہ ایک مرتبہ بھی فعال نہیں ہوا۔ جب سے بنا ہے اس وقت سے بند پڑا ہے۔ نشیبی علاقوں سے پانی نکالنے کے لیے مشینری وغیرہ کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے یہاں زیادہ تر لوگ حکومت کی امداد کے منتظر تھے، اور کچھ ابھی تک ہیں۔
’دو فصلیں ضائع ہو چکیں، تیسری کی بھی فکر ہے‘ BBC
نشیبی علاقوں میں کئی کاشتکار بھی انتظار کرنے والے ان افراد میں شامل ہیں جن کی زمینیں اب تک زیرِ آب ہیں۔ فدا حیسن کا گاؤں ٹھری میرواہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی طرف واقع ہے۔
اس گاؤں میں لوگوں کے مکان قدرے اونچائی پر جبکہ زرعی زمین نشیب میں ہے۔ اس کے ارد گرد ریت کے اونچے اونچے ٹیلے ہیں۔ یہاں زیادہ تر چھوٹے کسان ہیں اور لگ بھگ 500 ایکڑ کے قریب قابل کاشت زمین ہے۔
اس میں فدا حسین کے دس ایکڑ شامل ہیں۔ ان کی زمین سمیت اب تک تقریباً 200 ایکڑ زرعی زمین پانی کے نیچے ہے۔
’میری اس وقت کپاس کی فصل تیار تھی۔ ہم وہ فصل اٹھا ہی نہیں سکے۔ لگ بھگ 200 من کپاس ہوتی ہے میری اور اس کی قیمت کوئی 20 لاکھ روپے ہونا تھی۔‘ اس کے بعد پانی زمین میں رک جانے کی وجہ سے دوسری فصل یعنی گندم بھی کاشت نہیں ہو پائی۔
’دو فصلیں ضائع ہو چکی ہیں، اب ہمیں خدشہ ہے کہ تیسری بھی ضائع ہو جائے گی اگر یہ پانی نہیں نکلتا۔‘فدا حیسن اب گزر بسر کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے گھر کا زیادہ تر حصہ بارشوں کے باعث گِر گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں انھوں نے اپنے علاقے کے عوامی نمائندوں سے درخواست کی تھی کہ اگر حکومت انھیں کچھ پائپ اور موٹر فراہم کر دے تو وہ یہ پانی نکال سکتے ہیں۔ لیکن اب تک انھیں ایسی کوئی مدد نہیں ملی۔
فدا حسین کہتے ہیں یہاں پہلے بھی کبھی کوئی ایسا سسٹم نہیں لگایا گیا جو زیادہ بارش ہونے کی صورت میں پانی کا فوری اخراج ممکن بنائے۔ اب انھیں فکر اس بات کی بھی ہے کہ کہیں ان کی زمین مسلسل پانی رکنے کی وجہ سے مستقل ناقابلِ کاشت ہی نہ ہو جائے۔
ایک جھیل کتنا علاقہ ڈبو سکتی ہے؟
ٹھری میرواہ سے کئی کلومیٹر جنوب کی طرف سیہون کے علاقے میں پاکستان کی سب سے بڑی تازے پانی کی جھیل ’منچھر‘ واقع ہے۔ سنہ 2022 کے سیلاب سے صوبہ سندھ میں جو تباہی ہوئی اس میں منچھر کا ایک بڑا حصہ ہے۔
لیکن یہ پانی منچھر نے خود نہیں نکالا تھا بلکہ اس میں کٹ لگا کر نکالا گیا۔ تو سوال یہ ہے کہ منچھر کو کٹ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ مولا بخش ملاح کا خاندان منچھر کے کنارے کئی دہائیوں سے آباد ہے۔
وہ ’منچھر بچاؤ‘ تحریک بھی چلا رہے ہیں اور یہاں کا گاؤں ان ہی کے نام سے وابستہ ہے۔ منچھر کے کنارے نکاسی کی نہر کے سرے پر کھڑے ہو کر انھوں نے مجھے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ منچھر سے پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں ہے۔
’انگریز کے دور میں یہاں پر جو نہر نکاسی کے لیے بنائی گئی تھی، آج بھی وہی ہے۔ نہ تو اس کو بڑا کرنے پر کام ہوا ہے اور نہ ہی کوئی نئی نہر بنائی گئی ہے۔‘ اس کے برعکس منچھر میں پانی کی آمد کہیں زیادہ ہے۔
BBCمولا بخش ملاح کہتے ہیں کہ اگر پانی کے اخراج کے لیے موزوں نہریں موجود ہوتیں تو اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھامنچھر پانی کہاں سے لیتی اور کہاں نکال سکتی ہے؟
قدرتی طور پر تو منچھر جھیل میں پانی کیرتھر کے پہاڑی سلسلوں سے آتا ہے اور جب اس کے سامنے بند نہیں باندھے گئے تھے تو اضافی پانی اس میں سے نکل کر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا تھا۔
جب اس کے سامنے بند باندھے گئے تو ضروری تھا کہ اس کو اضافی پانی کے لیے راستہ دیا جاتا تا کہ وہ دریائے سندھ تک پہنچ پائے۔ ابتدا میں جو راستہ نہر بنا کر دیا گیا وہ شاید اس کے لیے ابتدا میں کافی تھا، لیکن اب نہیں ہے۔
اڑل واہ نامی ایک نہر بنائی گئی تھی جس کی مدد سے جب منچھر میں پانی اضافی ہوتا ہے تو اس کو دریائے سندھ میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اڑل ہیڈ کے مقام پر اس کے تین دروازے ہیں جبکہ اڑل ٹیل جہاں سے پانی دریا میں گرتا ہے وہاں پانچ دروازے ہیں۔
مولا بخش ملاح کہتے ہیں کہ منچھر میں اب جتنا پانی بارشوں اور سیلاب کے دنوں میں آتا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ نہر بہت چھوٹی ہے اور یہ دروازے بہت کم ہیں۔
منچھر میں آخر کتنا پانی آتا ہے؟
مولا بخش ملاح نے مجھے بتایا کہ منچھر میں ایک تو کیرتھر کے پہاڑی سلسلے سے پانی آتا ہے جو اس کا پانی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک نہر منچھر میں گرتی ہے جس کو مین نارا ویلی یا ایم این وی کینال کہا جاتا ہے۔
یہ بالائی سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں سے پانی لا کر منچھر میں پھینکتی ہے۔ مولا بخش ملاح کہتے ہیں کہ یہ گندہ پانی ویسے ہی منچھر کو خراب کر چکا ہے۔ لیکن بارشوں کے دنوں میں یہ پانی بہت زیادہ ہو گیا تھا۔
ساتھ ہی کیرتھر کے پہاڑوں سے آنے والے پانیوں نے بھی ایم این وی جگہ جگہ سے توڑ دیا۔ یہ پانی بھی ایم این وی میں شامل ہوتا گیا۔ اس لیے ان مخلتف ذرائع سے منچھر میں جتنا پانی شامل ہو رہا تھا دوسری طرف سے اس کا اخراج نہ ہونے کے برابر تھا۔
پھر وہ وقت آیا جب پانی جھیل میں شامل ہو رہا تھا لیکن نکالا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب تھا۔ اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ منچھر کسی بھی مقام سے ٹوٹ سکتی ہے۔ زیادہ امکان یہ تھا کہ یہ اخراج کی جگہ سے ٹوٹ جائے۔
اس سے سیہون کا شہر ڈوب سکتا تھا۔ زیادہ تباہی سے بچانے کے لیے منچھر کو دو کٹ خود لگائے گئے۔ اس سے جو پانی نکلا اس نے بھان، دادو، جوہی اور دیگر علاقے میں کئی دیہاتوں کو نقصان پہنچایا۔
کیا اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا؟
مولا بخش ملاح کہتے ہیں کہ اگر پانی کے اخراج کے لیے موزوں نہریں موجود ہوتیں تو اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔ ’میں نے حکومت سے کہا تھا کہ آپ اس نہر کی گنجائش بڑھاؤ اور کم از کم ایک لاکھ کیوسک کرو۔ اس وقت یہ صرف صرف پانچ سے سات ہزار کیوسک ہے۔‘
وہ کہتے ہیں اس کے علاوہ ایک نہر جسے انڈس لنک کینال کہا جاتا ہے وہ بنائی گئی تھی کہ اگر منچھر میں پانی زیادہ ہو تو ایم این وی نہر کے پانی کو منچھر کو بائی پاس کر کے سیدھا دریا میں ڈال دیا جائے۔ یہ نہر ایم این وی کے سسٹم کے ساتھ بنائی گئی تھی۔
’لیکن اس نہر نے کام ہی نہیں کیا۔ اگر وہ کام کرتی تو بھی امید تھی کہ منچھر میں پانی کم بھرتا اور اس کو توڑنے کی ضرورت نہ پڑتی۔‘
لیکن ایک جگہ ایسی تھی جہاں لوگ اتنے زیادہ پانی کے آنے کی وجہ سے خوش تھے اور یہ لوگ دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں رہتے ہیں۔
BBC’سمندر دریا کی زمین نگل رہا ہے‘
کئی سالوں سے دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کی وجہ سے سمندر دریا کی جگہ بھی اپنے اندر لے چکا ہے اور ابھی اس کی پیش قدمی جاری ہے۔ علی اکبر جت کا خاندان اس کی وجہ سے کئی مرتبہ ہجرت کر چکا ہے کیونکہ سمندر ان کی زمین پر آ گیا تھا۔
وہ ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں اور انھیں پانی کے قریب ہی رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’سمندر بادشاہ ہے، دریا کی زمین ہے مگر وہ کھائے جا رہا ہے۔ دریا میں پانی ہی نہیں ہے۔‘
اب بھی وہ کیٹی بندر کے قریب جس جگہ بیٹھے ہیں وہاں انھوں نے مٹی کے بند باندھ کر سمندر کے پانی روک رکھا ہے۔ پاکستان فشرز فورم سے تعلق رکھنے والے گلاب شاہ نے مجھے بتایا کہ ایک زمانے میں 17 کریکس تھیں جہاں سے دریائے سندھ کا پانی سمندر میں شامل ہوتا تھا۔
’اب صرف دو بچی ہیں اور ان میں بھی پانی اس وقت آتا ہے جب برسات کے دنوں میں پانی وافر ہوتا ہے اور اوپر ڈیموں کے دروازے کھول کر اسے نکالا جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر دریا میں پانی کم ہونے کا یہی رجحان رہا تو سمندر آگے آتے ہوئے سندھ کے شہروں بدین اور ٹھٹھہ بالکل ختم کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں لوگ خوش تھے جب سنہ 2022 کا سیلاب یہاں پہنچا تھا۔
لیکن کچھ دن دریا کے ڈیلٹا میں رہنے کے بعد یہ پانی ختم ہو گیا اور سمندر ایک مرتبہ پھر دریا کی زمین میں داخل ہو گیا۔