خواتین کا عالمی دن: بھوپال کی شاہی ریاست جسے نواب بیگمات نے نئی پہچان دی

بی بی سی اردو  |  Mar 08, 2023

Getty Imagesآگرہ کے بعد بھوپال میں بھی تاج محل کے نام سے ایک عمارت ہے، جسے شاہ جہاں بیگم نے بنوایا تھا

خواتین کا عالمی دن دنیا بھر میں خواتین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور معاشرے میں ان کے کردار کی عکاسی کرتا ہے لیکن اگر ہم بھوپال کی شاہی ریاست کو دیکھیں تو یہاں کی خواتین حکمرانوں نے اس ریاست کو جدت دی۔

بھوپال کی شاہی ریاست کی بنیاد سردار دوست محمد خان نے فتح گڑھ کا قلعہ بنا کر رکھی تھی لیکن اسے یہاں کی نواب بیگمات نے مناسب پہچان دی تھی۔

اس دور کا آغاز قدسیہ بیگم سے ہوتا ہے جو تقریباً 107 سال تک جاری رہا اور نواب سلطان کا دور جو جہاں بیگم کے زمانے تک قائم رہا۔ یہاں کا اقتدار 1819 سے 1926 تک شاہی بیگمات کے ہاتھ میں رہا۔

پہلی خاتون نواب حکمران کی بات کریں تو قدسیہ بیگم کا نام آتا ہے، جنھیں گوہر بیگم کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ 1819 میں اپنے شوہر کے قتل کے بعد انھیں 18 سال کی عمر میں نواب بنا دیا گیا۔

اگرچہ وہ پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود مؤرخین انھیں اپنے وقت سے آگے کی عورت کہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی فوج کے ہمراہ کئی جنگیں بھی لڑیں۔ ان کا بنایا ہوا گوہر محل آج بھی بڑے تالاب کے کنارے موجود ہے۔ انھوں نے بھوپال کی جامع مسجد بھی بنوائی تھی۔

تاریخ دان اور سیفیہ کالج کے پروفیسر اشعر قدوائی بتاتے ہیں کہ ’آج بھی لوگ خواتین کو اپنے سے اوپر نہیں دیکھنا چاہتے لیکن بھوپال ایک ایسی شاہی ریاست تھی، جہاں خواتین نے حکومت کی اور پوری ریاست کو ہر طرح سے آگے بڑھایا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ان خواتین نے نہ صرف حکومت کی بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ لے کر چلیں۔ ان کے دورِ حکومت میں ہندو اور مسلمان دونوں نے بطور وزیر کام کیا۔‘

اشعر قدوائی کہتے ہیں کہ دوسرے نمبر پر راج کرنے والی سکندر جہاں بیگم کے لیے بھی چیلنجز کم نہیں تھے۔ اس وقت ان کے ماموں فوجدار محمد خان کو بھی ان کی مدد کے لیے وزیر بنایا گیا تھا لیکن اس کی وجہ سے انھیں انتظامیہ چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ آخر کار فوجدار محمد خان کو استعفیٰ دینا پڑا۔

سکندر جہاں بیگم کی خاصیت یہ تھی کہ وہ گھوڑے پر بیٹھ کر پوری ریاست کی سیر کرتی تھیں۔

انھوں نے دلی کی جامع مسجد کو انگریزوں سے مسلمانوں کو واپس دلانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ سنہ 1857 کی بغاوت کے بعد جامع مسجد بند کر دی گئی۔ انگریز سمجھتے تھے کہ مسلمان مسجد میں جمع ہو کر ان کے خلاف سازش کر سکتے ہیں۔

قدوائی بتاتے ہیں کہ ’سکندر جہاں بیگم نے اپنی ریاست کے ہر گاؤں کا دورہ کیا اور ہر چیز کا نقشہ بنایا، یہ نقشہ ہاتھ سے بنایا گیا تھا اور اس میں سب کچھ لکھا ہوا تھا۔ ریاست میں پہاڑ کہاں ہیں اور پانی کے ذرائع کہاں ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ یہ کام اس زمانے میں پہلی بار کسی نواب نے کیا تھا۔

سکندر جہاں نے بھی تعلیم کے لیے بہت کام کیا اور انھوں نے تعلیم کے فروغ کے لیے باہر سے علما کو بھی بلایا۔

ایک اور تاریخ دان ڈاکٹر شمبھو دیال گرو کے مطابق ’سکندر جہاں بیگم نے انتظامیہ کو بہت اچھے طریقے سے چلایا اور اپنی مستعدی کی وجہ سے انھوں نے بھوپال کی شاہی ریاست پر 30 لاکھ کا قرض آسانی سے واپس کر دیا۔‘

ڈاکٹر شمبھو کے مطابق ’سکندر جہاں بیگم نے اس ریونیو کی وصولی کو ختم کر دیا تھا جو اس وقت کنٹریکٹ کے ذریعے کیا جاتا تھا۔‘

شاہ جہاں بیگم کا نام خاتون نوابوں میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ شاہ جہاں بیگم نے اپنے سے پہلے کی دونوں خواتین کے کام کو بھی آگے بڑھایا لیکن انھیں عمارتیں بنانے کا بھی بہت شوق تھا۔

شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ آگرہ کے بعد بھوپال میں بھی تاج محل کے نام سے ایک عمارت ہے، جسے شاہ جہاں بیگم نے بنوایا تھا۔ اس کے ساتھ انھوں نے تاج المسجد کی تعمیر بھی شروع کی لیکن اسے مکمل نہ کر سکیں۔

تاج المسجد انڈیا کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ ان کی وفات کے بعد ہی مکمل ہوئی تھی۔

اسی دوران انھوں نے انگلینڈ کی پہلی مسجد جو کہ شاہجہانی مسجد کے نام سے مشہور ہے، بھی تعمیر کروائی۔ شاہ جہاں بیگم ایک مؤثر منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی مصنفہ بھی تھیں۔ انھوں نے اردو میں بھی کئی کتابیں لکھیں۔

بہت سے مؤرخین بتاتے ہیں کہ انھوں نے ہندوؤں کے تحفظ کے لیے بہت سے قوانین بنائے۔ انھوں نے ہندوؤں کی املاک کے تحفظ اور حفاظت کے لیے ایک ہندو پراپرٹی ٹرسٹ بھی قائم کیا۔

انھوں نے مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سکول کی تعلیم شروع کی، لیکن وہاں قرآن و دین کی تعلیم بھی دی گئی۔ ہندو لڑکیاں وہاں نہیں پڑھ سکتی تھیں، اس لیے انھوں نے ہندو لڑکیوں کے لیے کنیا شالا شروع کی۔

بھوپال کی آخری خاتون نواب سلطان جہاں بیگم تھیں۔ جنھوں نے 1901 میں تخت سنبھالا۔ سلطان جہاں بیگم نے بھی تعلیم کو بہت اہمیت دی۔

Getty Imagesنواب جہاں بیگماپنے بیٹے نواب حمیداللہ خان کے ہمراہ بیگم جنھوں نے بھوپال کو جدید بنایا

اشعر قدوائی کہتے ہیں کہ ’جب بھی سلطان جہاں بیگم نے تعلیم کے بارے میں بات کی تو انھوں نے بتایا کہ قرآن اور حدیث میں خواتین کی تعلیم کے بارے میں کتنا کہا گیا ہے۔‘

قدوائی انھیں ایک ایسی خاتون مانتے ہیں جس نے اس وقت اپنی ریاست میں جدت لانے پر زور دیا۔

انھوں نے قصرِ سلطانی محل بنوایا جو اب بھوپال میں احمد آباد محل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے منٹو ہال بھی بنوایا، جسے بعد میں مدھیہ پردیش قانون ساز اسمبلی کے طور پر طویل عرصے تک استعمال کیا گیا۔

اس کے علاوہ انھوں نے اس وقت سلطانیہ گرلز سکول بھی تعمیر کروایا جو ابھی تک چل رہا ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی چانسلر تھیں اور آل انڈیا کانفرنس آن ایجوکیشن کی پہلی صدر بھی تھیں۔

سکول آف پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر کی پروفیسر سویتا راجے، جنھوں نے بھوپال کے نوابی دور کے فن تعمیر پر کافی کام کیا ہے، کہتی ہیں کہ بھوپال میں ان بیگموں کے بنائے ہوئے محلات اور دیگر چیزوں کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب ملک کے دوسرے محلات کی بات کی جائے تو وہاں آپ کو خواتین اور مردوں کے الگ الگ حصے نظر آتے ہیں لیکن یہاں وہ نہیں ملیں گے کیونکہ بھوپال ایک ایسا شہر ہے، جہاں عورتیں مردوں کے بھیس میں کام کرتی تھیں۔‘

راجے بتاتی ہیں کہ یہاں کے محلات کی یہ خاصیت اسے مختلف بناتی ہے۔

برکت اللہ یوتھ فورم بھوپال کے کوآرڈینیٹر انس علی، جو ہر سال یاد بیگمات پروگرام منعقد کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان خواتین نوابوں نے شہر کو ایک الگ پہچان دی۔

انھوں نے بتایا کہ آخری خاتون نواب سلطان جہاں بیگم نے بھوپال میں کنگ جارج ہسپتال بنوایا جو اب حمیدیہ ہسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے اور شہر کا سب سے ممتاز ہسپتال ہے۔

انس علی کہتے ہیں کہ ’ان خواتین نے عمارتیں بنائیں، امن قائم کیا، فیکٹریاں لگائیں، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سکول کھولے، یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسی شاندار تاریخ کو یاد رکھیں اور اسے دہرائیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More