Getty Images
پاکستان اور بین الا قوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے درمیان ایک ماہ قبل شروع ہونے والے مذاکرات کے بعد فریقین کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ جلد ہونے کی توقع ہے جس کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط جاری ہو سکے گی۔
اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے مشن کے پاکستانی وفد سے مذاکرات نو فروری کو ختم ہو ئے جس کے بعد دونوں کے درمیان ورچوئل مذاکرات کے مختلف ادوار بھی منعقد ہوئے جس میں سٹاف لیول معاہدے پر دستخط کے لیے ضروری امور نمٹائے گئے۔
آئی ایم ایف سے اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کے بعد پیشگی اقدامات کے طور پر پاکستان نے سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے اٹھارہ فیصد کرنے اور لگژری اشیا پر اس کی شرح 25 فیصد کرنے کے اقدامات اٹھائے تو اس کے ساتھ ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی بھی بڑھا دی گئی۔ آئی ایم ایف شرط کے تحت بجلی کے بلوں پر سرچارج کی شرح بھی بڑھا دی گئی۔
پاکستان کی جانب سے فروری کے مہینے میں کچھ اقدامات اٹھائے گئے تاہم اس کے باوجود دونوں کے درمیان معاہدہ تاخیر کا شکار ہوا جس کی وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے مزید شرائط پوری کرنے کا مطالبہ تھا جس میں بجلی کے بلوں میں سرچارج لگانا تھا جس کی منظوری اب نیپرا کی جانب سے دے دی گئی ہے۔
تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے بیرونی فنانسنگ کے شعبے میں سات ارب ڈالر پورے کرنے کی شرط کا بھی کہا گیا جس کے ذریعے جاری کھاتوں کے خسارے کو ہدف تک رکھا جا سکے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سوموار کی رات کو ہونے والے ورچوئل مذاکرات میں پاکستان نے بیرونی فنانسنگ کے شعبے کے اپنے پلان کو آئی ایم ایف سے شیئر کیا۔
فارن فنانسنگ کے شعبے میں آئی ایم ایف کی جانب سے لگائی جانے والی شرط کے تحت پاکستان موجودہ مالی سال کے باقی مہینوں میں اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے ساتھ جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کر سکے گا۔
سٹاف لیول معاہدے سے پہلے ان پیشگی اقدامات پر عمل درآمد کے بعد ہی ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط جاری ہو سکے گی۔
پاکستان میں معیشت کے ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف ک جانب سےشرائط بہت سخت ہیں تاہم ان شرائط کے مانے بغیر پاکستان کے لیے قرضہ پروگرام کی بحالی ممکن نظر نہیں آتی۔
ان کے مطابق پاکستان جن حالات کا شکار ہے اس میں آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد ہی پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر منجمد بیرونی فنانسنگ کی آمد ممکن ہو سکے گی۔
Getty Imagesپاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ تاخیر کو شکار کیوں ہوا؟
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول معاہدے میں تاخیر اور اس کی وجہ سے پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری نہ ہونے میں بین الاقوامی ادارے کی جانب سے پیش کی جانے والی کچھ شرائط ہیں جن پر عمل درآمد کے بعد ہی سٹاف لیول معاہدہ ممکن ہو پائے گا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے بلوں پر 3.82 روپے فی یونٹ کے حساب سے مستقل سر چارج لگانے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ اس شعبے میں جمع ہونے والے گردشی قرضے کو مستقل طور پر ختم کیا جا سکے جسے اب حکومت کی جانب سے پورا کر دیا گیا۔
مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ کا نفاذ اور اس کے ساتھ ملکی شرح سود میں ڈیڑھ سے ڈھائی فیصد کے اضافے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
مرکزی بینک کی جانب سے گذشتہ ہفتے تین فیصد شرح فیصد میں اضافے کا اعلان کیا گیا تو اس کے ساتھ مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے گذشتہ ہفتے ڈالر ایک دن میں 19 روپے تک بڑھ گیا تھا تاہم آئی ایم ایف شرائط کو پورا کر دیا گیا ۔
بیرونی فنانسنگ کے شعبے میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان سے یقین دہانی مانگی گئی کہ وہ جاری کھاتوں کے سات ارب ڈالر کے خسارے کو دوسرے ممالک سے فنڈ حاصل کر کے ختم کرے گا۔ حکومت کی جانب سے موجودہ مالی سال میں پانچ ارب ڈٓالر کے بیرونی خسارے کی توقعات ظاہر کی گئی ہیں۔
تاہم آئی ایم ایف جاری کھاتوں کے خسارے کو سات ارب ڈالر پر دیکھ رہا ہے اور اس کے لیے پاکستان کے دوست ممالک سے فنڈنگ کی مضبوط یقین دہانی چاہتا ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف معاہدے پر رپورٹنگ کرنے والے معاشی امور کے صحافی مہتاب حیدر کے مطابق آئی ایم ایف معاہدے سے پہلے ان پیشگی اقدامات پر عمل درآمد چاہتا ہے، جس کے بعد مذاکرات میں پیشرفت ممکن ہو پائے۔
Getty Imagesمعاہدے میں تاخیر کا ذمہ دار کون؟
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں تاخیر اس وقت ہوئی جب پاکستان کو اس پروگرام کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے ساتھ پاکستان دوسرے عالمی اداروں اور بیرونی ممالک سے فنڈز بھی حاصل کر سکے کیونکہ پاکستان کے گرتے ہوئے زرمبادلہ ذخائر کی وجہ سے ایک جانب ملک کو بیرونی قرضے کی ادائیگیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں تو دوسری جانب ملک میں ڈالروں کی کمی وجہ سے اس وقت بھی درآمدی مال کے ہزاروں کنٹینرز ملکی بندرگاہوں پر رکے ہوئے ہیں۔
اس کیوجہ سے بہت ساری چیزوں کی سپلائی چین میں تعطل کے ساتھ ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ بھی ہوا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں تاخیر کا ذمہ دار کون ہے، اس بارے میں مہتاب حیدر نے کہا کہ ’بنیادی اونرشپ تو پاکستان کی بنتی ہے کیونکہ پاکستان کو قرض لینا ہے اور اسے شرائط بھی پوری کرنی ہیں۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ کچھ ذمہ داری آئی ایم ایف کی بھی بنتی ہے کہ جو ایسے مطالبات کرتا ہے جس سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے لیکن اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات پر اثر نہیں پڑتا۔‘
انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف نے سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کا مطالبہ کیا اور اسے پاکستان نے پورا کیا تاہم آئی ایم ایف نے مراعات یافتہ طبقات اور شعبوں پر ونڈ فال ٹیکس کا مطالبہ نہیں کیا۔ بہر حال زیادہ ذمہ داری پاکستان کی بنتی ہے کیونکہ بنیادی طور پر قرضہ ہمیں لینا ہے تو پھر پیشگی اقدامات کے طور پر ہمیں شرائط بھی ماننا پڑیں گی۔‘
یہ بھی پڑھیے
آئی ایم ایف پاکستان میں پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیوں چاہتا ہے؟
معاشی بحران: پاکستان کے لیے آئی ایم ایف امداد کتنی اہم ہے؟
آئی ایم ایف معاہدہ: خراب ملکی معیشت کی وجہ سابقہ حکومت کا شرائط پوری نہ کرنا یا موجودہ حکومت کی بد انتظامی؟
معاشی امور کے ماہر فرحان بخاری نے اس سلسلے میں کہا کہ شاید زیادہ ذمہ داری ہماری ہے کیونکہ آئی ایم ایف پاکستانی حکومتوں کے ماضی کے رویوں کو بھی دیکھتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایک اعتماد کا فقدان بھی ہے کیونکہ آئی ایم ایف سمجھتا ہے کہ ہم ایک ارب ڈالر دے دیں اور پھر پاکستان ان شرائط کو بعد میں تسلیم کرنے سے پیچھے ہٹ جائے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے فیصلوں اور اقدامات نے بھی اس سلسلے میں نقصان پہنچایا ۔ مثلآ جب انھوں نے کہا ہمیں آئی ایم ایف کی پرواہ نہیں اور اس طرح کے کچھ دوسرے اقدامات جنھوں نے پاکستان کے آئی ایم ایف سے پروگرام میں رکاوٹیں پیدا کیں۔‘
لاہور یونیورسٹی آف مینجمینٹ سائنسز میں معیشت کے استاد علی حسنین نے بھی پاکستان کو معاہدے میں تاخیر کا زیادہ ذمہ دار ٹھہرایا کہ ’جب ہم اپنے وعدوں سے مکر جاتے ہیں تو پھر لازمی طور پر ایک اعتماد کا فقدان ہے۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ آئی ’ایم ایف پر بھی اس کی کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، آئی ایم ایف معاہدے کو صرف معاشی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ اس کا ایک جیو پالیٹکس تناظر بھی ہے۔ ہمارے مغرب کے ساتھ مسائل ہیں اور اب ہم ان کی ترجیحات میں اس طرح شامل نہیں کہ وہ ہمیں آئی ایم ایف سے رعایت دلانے میں مدد دے سکے۔‘
Getty Imagesآئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں ماہرین معیشت نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کی وجہ سے ملک کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا کیونکہ دوسرے عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ممالک نے پاکستان کے لیے فنڈنگ کو اس آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے جوڑ رکھا ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے قسط کے اجرا کے بعد ہی دوسرے فنڈز پاکستان میں آ سکیں گے۔
معاشی امور کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر نے سب سے بڑا منفی اثر غیریقینی کی صورتحال میں پیدا کیا جس کی وجہ سے فنانشنل مارکیٹ میں منفی اثرات پیدا ہوئے جس کی مثال موڈیز اور فچ کی جانب سے پاکستان کی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ کا کم کرنا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ ساتھ اس تاخیر نے روپے کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے اور ڈالر اور روپے کے درمیان شرح مبادلہ بہت زیادہ غیر یقنی صورتحال شکار رہی اور اس کا اثر روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی کی صورت میں نظر آیا۔ اس کا منفی اثر سٹاک مارکیٹ پر بھی نظر آیا جہاں سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی۔ ‘
ثنا توفیق نے معاہدے پر تاخیر کی وجہ سے ایک عام آدمی پر پڑنے والے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ’جب فنانشنل مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال ہوئی اور روپے کی قدر میں گراوٹ آئی تو ایک عام آدمی کے لیے بہت ساری چیزیں مہنگی ہوئیں کیونکہ پاکستان اپنی داخلی ضرورت جن میں کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر تیل کی ضرورت درآمد کے ذریعے پوری کرتا ہے اور روپے کی قدر گرنے سے یہ مہنگی ہوئیں۔‘
انھوں نے کہا ’اگر یہ معاہدہ پہلے ہو جاتا ہے تو ایک عام آدمی پر بوجھ مرحلہ وار طریقے سے پڑتا تاہم نومبر سے معاہدے میں تاخیر ہو رہی ہے اور جب معاہدہ کرنا مجبوری بنا گیا تو پھر یکدم بجلی، گیس اور شرح سود کو بڑھانا پڑا جس کا منفی اثر ایک عام آدمی کے ساتھ ملک میں کاروباری طبقے پر بھی پڑا۔‘
ثنا نے بتایا کہ ’اس تاخیر سے پاکستان میں بیرونی فنانسنگ کے شعبے میں ان فلوز کی آمد رک گئی اور زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کمی کا شکار ہو کر اس وقت بہت کم ترین سطح پر موجود ہیں۔‘