BBCڈاکٹر مریم معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہیں
پرجوش اور حاضر جواب ڈاکٹر مریم محمود کہتی ہیں ’بہت سے شوہر اپنی بیویوں کو اس سوچ کے ساتھ مارتے ہیں کہ وہ مرد ہییں ناکہ برے مرد۔‘
ڈاکٹر مریم ایک بین الاقوامی این جی او ’ایس او ایس چلڈرن ویلج‘ کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ اردن کے لوگوں میں گھریلو تشدد کے متعلق بیداری پیدا کرتی ہیں۔
ڈاکٹر مریم سائیکائٹرسٹ ہیں۔ وہ مردوں کو چائے پر مباحثے کے لیے بلاتی ہیں اور ان سے کچھ سوالات کرتی ہیں۔
یہ بتانے سے پہلے کہ بیوی کو مارنا شریعت یا اسلام کے قوانین کے خلاف ہے، وہ ہلکے پھلکے انداز میں پوچھتی ہیں ’کیا آپ کو اپنی بیوی کو مارنا پسند ہے؟‘
اس کے بعد اس کے متعلق کھلی بحث شروع ہو جاتی ہے کہ مردوں کو اپنی بیویوں پر کس حد تک قابو رکھنا چاہیے۔
ایک مرد نے کہا کہ ’اگر آپ غصہ نہ کریں یا حد مقرر نہ کریں تو عورتیں بے قابو ہو جاتی ہیں۔‘
ڈاکٹر مریم پر تپاک انداز میں پوچھتی ہیں ’تو کیا آپ کے پیٹنے سے، آپ کے قابو میں رہیں گی؟‘
مرد کہتا ہے کہ ’بے رحمی سے نہیں (مارنا چاہیے)۔‘
ڈاکٹر مریم محمود اپنے سوال کو جاری رکھتے ہوئے پوچھتی ہیں ’بے رحمی اور بے دردی میں کیا فرق ہے؟‘
اس مرد نے جواب دیا ’بے رحمی سے مارنے سے چوٹ، زخم، یا کٹنے کے نشان پڑ جاتے ہیں۔‘
پھر ڈاکٹر مریم پوچھتی ہیں ’تو اس کا مطلب ہے کہ سر پھٹنے تک یہ وحشیانہ نہیں ہے؟‘
وہ مرد جواب دیتا ہے ’ایک یا دو تھپڑ۔‘
ڈاکٹر مریم کہتی ہیں ’مطلب یہ کہ، ایک یا دو تھپڑ معمول کی بات ہے؟‘
وہ قدرے طنزیہ اور مزید یقین سے کہتی ہیں ’ہم آپ کے خلاف نہیں ہیں، ابو سعید، ہم آپ کو جیل نہیں بھیجیں گے۔‘
لیکن مردوں سے ایسا کہلوا لینا بڑی بات ہے وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق چار میں سے ایک قتل گھریلو تشدد کی وجہ سے ہوتا ہے۔
’اسے خدا کا بھی خوف نہیں‘
ڈاکٹر مریم کی ایک اور مریضہ سارہ (ان کا اصل نام نہیں) بتاتی ہیں کہ پانچ سال تک روزانہ مار پیٹ کے بعد انھوں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا۔
وہ کہتی ہیں ’اس نے مجھے اس وقت بھی مارا جب میں حاملہ تھی۔ اس نے مجھے جنم دینے کے پانچ ماہ بعد دوبارہ مارا۔ یہ سب ایک چائے کے کپ پر ہوا۔ میں چائے بنانا بھول گئی تھی۔ اس نے مجھے تقریباً مار ہی ڈالا تھا۔‘
اب وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ شیلٹر ہوم میں رہتی ہے۔
سارہ کہتی ہیں ’اسے خدا کا بھی خوف نہیں، وہ یہاں بھی آ سکتا ہے۔‘
اردن مشرق وسطیٰ کا پہلا ملک ہے جس نے گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے خصوصی پولیس فورس قائم کی ہے لیکن یہاں مردوں کو خواتین سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔
وہ خواتین جو تشدد کی اطلاع دیتی ہیں انھیں اپنے خاندان سے بے دخل ہونے یا جیل بھیجے جانے کا خطرہ بھی ہے۔
میسون (اصل نام نہیں) نے اپنے متشدد والد کے بارے میں خاندان اور جووینائل پروٹیکشن پولیس ڈیپارٹمنٹ میں متعدد بار شکایات کیں۔
وہ کہتی ہیں ’افسر ہمیشہ کہتے ہیں، یہ آپ کے والد ہیں، آپ کا خاندان ہے۔ کیا آپ واقعی انھیں چھوڑنا چاہتی ہیں؟‘
وہ کہتی ہیں کہ حکومتی رویہ بھی مردوں کے حق میں ہے۔
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’اس کے بارے میں سوچو، یہ ہمارے رسم و رواج اور روایات ہیں، یہ نیویارک نہیں ہے۔‘
ان کے باپ کو کبھی سزا نہیں ہوئی۔ اس کے بجائے، فیملی پروٹیکشن ٹیم نے فیملی اور میسون کے درمیان سمجھوتہ کرانے کی کوشش کی، جو میسون کے لیے بہت بڑی مصیبت ثابت ہوئی۔
میسون نے بتایا ’انھوں نے مجھے کہا، اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ ورنہ تم جیل جاؤ گی۔
’میں نے سوچا کہ وہ مذاق کر رہے ہیں لیکن جب میں نے کہا کہ مجھے جیل میں ڈال دو تو انھوں نے ایسا ہی کیا۔‘
میسون کا کہنا ہے کہ افسران نے انھیں بتایا کہ یہ ان کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔
فیملی پروٹیکشن یونٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا مقصد 'خاندان کی ہمیشہ حفاظت کرنا' ہے۔
ایک خاتون افسر نے کہا ’اگر خاتون شکایت کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مرد کو جیل بھیج دیں۔ ہمارا کام قانون کے مطابق شکایت کنندہ کی مدد کرنا اور متبادل فراہم کرنا ہے۔‘
میسون چار سال تک جیل میں رہیں جب تک کہ اردنی خواتین کی تنظیم کے کارکنوں نے انھیں رہا نہ کرایا۔
جیل سے رہائی کے بعد وہ اردن کے چھ پناہ گاہوں میں سے ایک میں چلی گئیں۔
BBCڈاکٹر مریم مردوں کو چائے پر مدعو کرتی ہیں تاکہ ان سے گھریلو تشدد سے متعلق بات ہو سکے
قانونی رکاوٹ
لیکن میسون کے والد تا حال ان کی زندگی کو کنٹرول کرتے رہے ہیں۔ تیس سال سے زیادہ عمر کی غیر شادی شدہ خاتون ہونے کی وجہ سے، میسون کے والد اب بھی اسے کام کرنے سے روکنے کے قابل ہیں۔
اردن نے سنہ 2008 میں گھریلو تشدد کا قانون نافذ کیا اور پولیس کو مزید اختیارات دیے۔
لیکن گھریلو تشدد کے خلاف قانون میں اب بھی خاندان کے ساتھ مصالحتی معاہدے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
اور، عام طور پر، ذاتی حیثیت کا قانون اسے منسوخ کر دیتا ہے کیونکہ یہ شرعی قانون پر مبنی ہے اور مردوں کو عورتوں کی زندگیوں پر اختیار دیتا ہے۔
ایک مرد سرپرست 30 سال تک عورت کی زندگی کو کنٹرول کر سکتا ہے اور وہ اسے گھر سے نکلنے سے بھی منع کر سکتا ہے۔
یہاں تک کہ ایک 50 سالہ عورت کو اس کے مرد رشتہ داروں کی طرف سے کنٹرول میں رکھنا ایک عام سی بات ہے۔
کاغذ کا ٹکڑا آزادی کی ضمانت بنا
ثالث کا کردار ادا کرنے والا ایک کارکن بالآخر میسون کے والد کو ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا جس سے میسون کو خاندان سے آزاد رہنے کی اجازت مل گئی۔
وہ کہتی ہیں ’اگر مجھے وہ دستخط نہ ملتے تو میں کام کرنے اور آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے پناہ گاہ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔
'اس کی وجہ سے میری ساری زندگی تھم سی گئی تھی۔ کاغذ کا یہ ٹکڑا میرے لیے کسی لاٹری سے کم نہیں۔‘
لیکن یہ بہت عام نہیں ہے، ایک ایسے ملک میں جہاں گھریلو تشدد کے متاثرین کو حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد دستیاب نہیں ہے۔
سنہ 2022 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا کہ اردن میں اکثر خواتین 30 سال کی عمر کے بعد سماجی دباؤ کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔
وہاں یہ مانا جاتا ہے کہ خواتین کا بنیادی کردار صرف گھر میں رہنے تک ہی محدود ہے۔ ایسا بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات کی کمی اور خواتین کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو غیر محفوظ تصور کیے جانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
خوف میں زندگی BBCڈاکٹر مریم کہتی ہیں کہ ایسی خواتین کے لیے یہ ایک طویل اور تنہا سفر ہے جو شیلٹر ہومز میں صرف چھ ماہ تک رہ سکتی ہیں
ڈاکٹر مریم کا خیال ہے کہ معاشی دباؤبھی کچھ حد تک مردوں کو تشدد پر اکساتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میں مردوں سے کہتی ہوں کہ میں جانتی ہوں کہ معاشی صورت حال بہت مشکل ہے، میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس سے آپ ناراض ہوتے ہیں، لیکن یہ کوئی بہانہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ تشدد جائز ہے تو یہ قابل قبول نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر مریم کا کہنا ہے کہ تشدد عورت کو توڑ سکتا ہے۔ سارہ کے ساتھ بات چیت میں انھوں نے انھیں بہت کچھ بتایا کہ وہ اپنی زندگی کو کیسے بہتر بنا سکتی ہیں۔
ایسی خواتین کے لیے یہ ایک طویل اور تنہا سفر ہے جو ان شیلٹر ہومز میں صرف چھ ماہ تک رہ سکتی ہیں۔
سارہ کے شوہر کو پرتشدد حملہ کرنے پر تین دن کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن پھر اس نے سارہ پر ’طوائف‘ ہونے کا الزام لگایا۔ یہ ایسا الزام ہے کہ سارہ کو اپنے بچوں سے الگ ہونا پڑ سکتا ہے اور جیل بھی ہو سکتی ہے۔
تاہم فیملی پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ نے معاملے کی تحقیقات کی اور آخر کار ان الزامات کو مسترد کر دیا۔
یہ ایک چھوٹی سی فتح تھی، لیکن اب جب کہ وہ آزاد ہیں، خطرہ پھر بھی باقی ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میرا شوہر سوچتا ہے کہ میں اس کی غلام ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ میں اردن میں ایک اور قتل کا شکار بن جاؤں گی۔‘