کیا عمران خان کی تقاریر پر پابندی سے انھیں کوئی فرق پڑے گا؟

بی بی سی اردو  |  Mar 06, 2023

Getty Images

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو حکم دیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان ’ریاستی اداروں اور افسران پر مسلسل بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں اور نفرت پھیلا رہے ہیں‘ لہذا ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی ہوگی۔

عمران خان نے اتوار کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کسی فوجی اہلکار کا نام لیے بغیر ’لوگوں کے کپڑے اتار کر ان کی ویڈیوز‘ بنانے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

متعدد ٹی وی چینلز نے عمران خان کی یہ تقریر سینسر کر کے چلائی تھی تاہم اس کے کچھ گھنٹوں بعد ہی پیمرا نے عمران کی لائیو یا ریکارڈڈتقریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ پیمرا نے کسی سیاسی رہنما کی تقریر نشر کرنے پر پابندی لگائی ہو۔ بلکہ ماضی میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے لیے بھی ایسے ہی حکمنامے جاری کیے جا چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مخصوص شخصیات کے انٹرویوز یا موقف پر پابندی: کیا پیمرا ایسا کر سکتا ہے؟

’ملک میں صرف یہ جرنیل ہی حکومت کر رہے ہیں‘

پیمرا نے 2020 میں سابق وزیراعظم نواز شریف پر اس وقت پابندی لگائی تھی جب انھوں نے گوجرانوالہ جلسے میں ویڈیو لنک کے ذریعے سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا تھا۔

2019 میں سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویو کو نشر کرنے پر پیمرا کی جانب سے پابندی لگائی گئی تھی۔ اس فہرست میں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز اور موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی رہ چکے ہیں جو اب کھل کر کسی بھی ٹی وی چینل پر اپنی بات کر سکتے ہیں۔

اس معاملے پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ایسے ہتھکنڈے عمران خان کی ذات پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ہیں۔

’عمران خان پر پابندی حکومت کی بوکھلاہٹ کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ اور ایک جرنیل پر تنقید کرنے سےعمران خان کی تقریر نشر کرنے پر پیمرا کی جانب سے پابندی یہظاہر کرتی ہے کہ اس ملک میں سیاست دان، عدلیہ یا کسی اور ادارے کا اختیار نہیں ہے۔ اس ملک میں صرف یہ جرنیل ہی حکومت کر رہے ہیں۔‘

جبکہ اس معاملے پر حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’عمران خان پر پابندی اس لیے عائد کی گئی کیونکہ وہ لوگوں میں اداروں اور حاضر سروس فوجی افسران پر قتل کے الزامات بغیر کسی ثبوت کے لگا رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ عمران خان نے اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور ان افسران کی جانیں خطرے میں ڈالی ہیں۔

نواز شریف پر لگائی جانے والی پابندی غلط اور عمران پر لگائی جانے والی پابندی درست کیسے، اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف پر پیمرا کی جانب سے پابندی اس لیے لگائی گئی تھی کہ انھوں نے فوج کی سیاست میں مداخلت پر تنقید کی تھی جو ایک سیاسی لیڈر کا حق ہے۔‘

ادھر تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ پیمرا کا دوہرا معیار ہے۔ ’مریم نواز آئے روز اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو جلسوں میں حاضر سروس ججز کی تصاویر چلاتی ہیں اور اسے سرکاری چینل پی ٹی وی نے بھی نشر کیا۔‘

Getty Imagesبعض ماہرین کے مطابق پیمرا کی پابندی آزاد میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی جیسے حقوق کی خلاف ورزی ہےعمران خان کی تقریر پر پابندی الیکشن مہم میں ان کے لیے رکاوٹ بنے گی؟

یہاں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ ایسے وقت میں عمران خان کی تقریروں پر پابندی لگی ہے جب وہ الیکشن مہم کا آغاز کرنے والے ہیں۔

میڈیا امور کے ماہر اسد بیگ کا کہنا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے ’پہلے بھی اپنے سپوٹرز کو ہمیشہ سوشل میڈیا پر متحرک کیا ہے اور اس بار بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔

’ان کے پاس باقاعدہ طور پر میڈیا کا پورا ایک الگ سیل ہے جو یہ کام کرتا ہے۔ اس لیے الیکشن مہم پر یہ چیزیں اثر انداز نہیں ہوتی ہیں۔‘

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی رہنماؤں کی تقاریر پر پابندی سے ان کی مقبولیت پر کوئی فرق پڑتا ہے؟

فواد چوہدری کی رائے ہے کہ ’عمران خان کو میڈیا چینلز کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ انھیں عمران خان کی ضرورت ہے۔ اور ویسے بھی پابندی لگانے والوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پہلے ہی لوگ مین سٹریم میڈیا سے سوشل میڈیا پر جا رہے ہیں۔

’جو لوگ مین سٹریم میڈیا دیکھتے ہیں، ان کے لیے چیزوں کو بلاک کریں گے تو وہ لوگ بھی سوشل میڈیا پر شفٹ ہو جائیں گے۔ یہ عمل میڈیا انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ہے۔‘

اسد بیگ نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیمرا کا کسی پر بھی پابندی لگانا غلط عمل ہے۔ یہ عمل آزادی رائے اور آزاد میڈیا جیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کسی کی تقریر پر پابندی صرف اس وقت لگائی جاسکتی ہے کہ جب ’خدشہ ہو کہ کسی کی بات سے حالات خراب ہو سکتے ہیں اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہو۔ جیسا کہ مذہبی انتشار پھیلانا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سیاسی لیڈر پر پابندی لگانا نامناسب ہے۔ ویسے بھی میں سمجھتا ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم سوشل میڈیا کے دور میں رہ رہے ہیں۔‘

اسد بیگ کے مطابق ’جب آپ کسی کی کوئی بات روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو لوگ یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلٹ فارمز پر جا کر وہی چیز تجسس میں زیادہ دیکھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک رہی بات عمران خان کی تو ان کے فالوورز تو پہلے ہی سوشل میڈیا پر زیادہ ہیں۔ وہ تو ابھی بھی سوشل میڈیا پر بات بھی کر رہے ہیں اور آئے روز اداروں کے خلاف ٹرینڈ بھی چلاتے ہیں۔‘

سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ پیمرا وہ ادارہ ہے جس کے پاس اپنا کوئی اختیار نہیں۔ ’جس کا دل کرتا ہے وہ اس پر دباؤ ڈال لیتا ہے۔ چاہے پھر وہ کوئی ادارہ ہو، حکومت ہو یا پھر میڈیا کے سیٹھ ہوں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارا میڈیا بھی اس سب کا قصور وار ہے کیونکہ وہ بھی پروپیگنڈا کرنے میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ہم آزاد میڈیا کی بات کرتے ہیں لیکن ہم یہ بات نہیں کرتے کہ اخلاقیات کا خیال رکھنا بھی میڈیا کی ہی ذمہ داری ہے۔‘

ابصار عالم کے مطابق کسی سیاسی رہنما کی تقریر پر پابندی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ’لوگ اب ان چیزوں کو سمجھتے ہیں۔‘

سماجی کارکن نگہت داد کے مطابق ’اگر عمران خان کی بات کریں تو ان کی تقریروں پر پابندی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہم نے ماضی بھی دیکھا کہ جس جس لیڈرکی بات کو روکنے کی کوشش کی گئی وہ تب تب اور زیادہ مقبول ہوا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More