برطانیہ میں پیرول بورڈ کے ایک پینل سے کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں سب سے طویل عرصے سے قید مجرموں میں سے ایک چارلس برونسن رہائی کی زندگی کے قابل نہیں رہا ہے۔
برطانیہ کے سب سے پرتشدد مجرموں میں سے ایک 70 سالہ شخص گزشتہ 50 سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں قید ہے۔
پینل اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ مجرم کو پیرول پر رہا کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ برونسں کو 1974 میں پہلی مرتبہ سزا ہوئی تھی جس کے بعد برونسن نے گذشتہ 50 برس میں بہت مختصر عرصے ہی جیل سے باہر گزارا ہے۔
تو برونسن کون ہے اور وہ اتنے عرصے سے جیل میں کیوں ہے؟
چارلس برونسن کون ہے؟Getty Images
بدنام زمانہ مجرم دسمبر 1952 میں لوٹن، بیڈفورڈ شائر میں مائیکل پیٹرسن کے نام سے پیدا ہوا تھا۔
اسے 1974 میں مسلح ڈکیتی کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور اس نے تشدد پر مائل اور خطرناک قیدی کے طور پر شہرت حاصل کی۔
سابق باکسر نے 1980 کی دہائی میں آزادی کے مختصر عرصے کے دوران اپنا نام بدل کر چارلس برونسن رکھ لیا تھا لیکن اب وہ چارلس سلواڈور کا نام استعمال کرتا ہے۔ اس نے ہسپانوی مصور سلواڈور ڈالی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس نام کا انتخاب کیا۔
Charles Bronson/Charles Salvador artworkIMAGE SOURCE,JP HUMBERT AUCTIONEER’انسائڈ فرنٹ‘، چارلس برونسن کے نام سے تیار کردہ آخری فن پارہ، تقریباً ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوا
جیل میں رہتے ہوئے، برونسن نے متعدد فن پارے بنائے ہیں اور بہت سے فروخت ہو چکے ہیں، جس میں سے کچھ آمدنی خیراتی اداروں کو عطیہ کی گئی ہے.
سنہ 2014 میں برونسن کے 200 فن پاروں کی نیلامی سے 30 ہزار پاؤنڈ سے زائد رقم جمع ہوئی تھی۔
برونسن کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں جیل میں اپنی فٹنس کے نظام اور انگلینڈ کے تین ہائی سکیورٹی ہسپتالوں میں سے ایک براڈمور ہسپتال میں گزرے وقت پر مبنی کتابیں بھی شامل ہیں۔
2009 میں ریلیز ہونے والی ٹام ہارڈی کی ایک فلم میں برونسن کے جیل کے وقت کو بھی ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا تھا۔
وہ اتنے عرصے سے جیل میں کیوں ہے؟Getty Images
برونسن کو پہلی بار 1974 میں مسلح ڈکیتی اور زخمی کرنے کے الزام میں 22 سال کی عمر میں جیل بھیجا گیا تھا۔
اس کے بعد سے برونسن نے جیل سے باہر صرف مختصر مدت گزاری ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ برونسن کا زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزرتا ہے۔
وہ جیل کے عملے اور دیگر قیدیوں پر حملوں کے لیے بدنام ہے۔
1975 میں اس نے ایک ساتھی قیدی پر شیشے کے جگ سے حملہ کیا اور 1985 میں اس نے چھت پر تین دن تک احتجاج کیا۔
1994 میں برونسن نے جیل لائبریرین کو یرغمال بنا لیا اور تاوان کے طور پر ایک گڑیا، ایک ہیلی کاپٹر اور چائے کا کپ مانگا تھا۔
چار سال بعد اس نے لندن کی بیلمارش جیل میں تین قیدیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس کے 12 ماہ بعد برونسن نے ایچ ایم پی ہل نامی جیل میں ایک جیل ایجوکیشن ورکر کو 44 گھنٹے تک یرغمال بنایا اور اسے کم از کم چار سال کے ساتھ صوابدیدی عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
سنہ 2014 میں برونسن کو ملٹن کینز میں واقع ایچ ایم پی وڈہِل جیل میں ایک اہلکار کو ہیڈ لاک یا گرد سے جکڑنے کے جرم میں مزید دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
2017 میںویسٹ یارکشائر کے ایچ ایم پی ویک فیلڈ جیل میں قید کے دوران اسے پیرول دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
ایک سال بعد، اسے جیل کے گورنر کو شدید نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔
اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران برونسن نے اعتراف کیا کہ وہ ماضی میں ’بہت برا آدمی‘ رہا ہے، اور اس نے جیوری کو بتایا کہ کس طرح جیل میں اپنے وقت کے دوران اس نے 9 مختلف محاصروں میں 11 یرغمالیوں کو یرغمال بنایا تھا، جن میں گورنرز، ڈاکٹرز، عملہ اور ایک موقع پر اس کا اپنا وکیل بھی شامل تھا۔
برطانوی چینل 4 پر نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم میں برونسن نے کہا تھا کہ وہ ’آزادی کا ذائقہ چکھ سکتا ہے‘۔
برونسن کا کہنا تھا کہ ’اس نظام نے مجھے کئی سالوں سے ناقابل برداشت، ناقابل علاج، غیر متوقع، خطرناک،وغیرہ وغیرہکا لیبل لگا رکھا ہے۔ میرے پاس ہر وہ لیبل ہے جس کے بارے میں آپ سوچ سکتے ہیں۔‘
’میں بور ہو رہا ہوں دوست‘
سماعت کے دوران جیل کے ایل اہلکار پہلے گواہ کے طور پر پیش ہوئے اور کہا کہ برونسن رہائی کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہا ہے۔
پینل کو بتایا گیا کہ وہ دن میں 23 گھنٹے اپنے سیل میں بند رہتا ہے اور صرف تین دیگر قیدیوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے جن کے ساتھ اس کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔
جب برونسن کو بتایا گیا کہ اس معاملے کی سماعت کرنے والے پیرول بورڈ پینل نے اس کے بارے میں حال ہی میں نشر ہونے والی ٹیلی ویژن دستاویزی فلم نہیں دیکھی، تو اس نے جواب دیا کہ ’مجھے اس پر یقین کرنا مشکل لگتا ہے۔‘
بال منڈھوائے برونسن نے سماعت کے دوران سوٹ اور اپنا مخصوص چھوٹے گول شیشے والا چشمہ پہن رکھا تھا۔
سماعت شروع ہونے کے چند منٹکے اندر ہی اس نے ایک ڈبے سے کچھ پیتے ہوئے اپنے کپڑے بھی گیلے کر لیے۔
سماعت کے دوران اپنی گواہی دیتے ہوئے برونسن نے تقریباً 10 منٹ تک بات کی۔
اس نے کہا ’بہت ہو چکا اب میں گھر جانا چاہتا ہوں۔‘
اس نے کہا کہ ’میں 50 سال جیل میں رہا ہوں جس میں سے میں شاید 35 سال کا حقدار تھا۔
’شاید اس لیے کہ میں بہت شرارتی تھا. شرارتیوں کا شرارتی نہیں بلکہ صرف شرارتی۔‘
پینل نے سنا کہ برونسن کو دن میں تقریبا ایک گھنٹے کے لئے اپنی سیل سے باہر جانے کی اجازت ہے۔
وہ اپنا کھانا لینے کے لیے باہر آتا ہے اور صحن یا جم میں چلا جاتا ہے، یا وہ بالکونی میں چہل قدمی کرتا رہتا ہے۔
انہیں تین دیگر قیدیوں کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہے، لیکن پینل نے سنا کہ وہ ان میں سے ایک کے ساتھ نہیں تھے۔
دن میں 23 گھنٹے اپنے سیل میں رہتے ہوئے وہ ریڈیو سنتا ہے یا آرٹ ورک کرتا رہتا ہے۔
پینل کو بتایا گیا کہ اسے 500 سے زیادہ لوگوں کی طرف سے ڈاک موصول ہوتی ہے۔ پینل کے ایک رکن نے قیدی مجرم مینیجر سے پوچھا کہ کیا برونسن نے ان سب کو جواب دیا۔
برونسن نے کہا، "وہسب کو جواب نہیں دے سکتا۔
تقریبا ایک گھنٹے کی عدالتی کارروائی کے بعد برونسن نے کہا: 'میں بور ہو رہا ہوں۔
پیرول بورڈ نے ابھی اس بات کا فیصلے کرنا ہے کہ آیا وہ اب بھی عوام کے لیے خطرہ ہے یا پھر اسے رہا کیا جا سکتا ہے۔
اگر بورڈ نے رہائی کے خلاف فیصلہ کیا تو پھر وہ اس بات پر غور کریں گے کہ آیا اسے کسی ’کھلی‘ جیل میں بھیجا جا سکتا ہے جہاں اسے کم پابندیوں کا سامنا ہو۔