BBCناصر اور جنید
جلی ہوئی بولیرو کار، کار میں دو مسلم نوجوانوں کی جلی ہوئی لاشیں اور مبینہ ’گاؤ رکشکوں‘ (گائے کے محافظوں) پر قتل کے سنگین الزامات۔
ہریانہ کے بھوانی ضلع سے یہ خبر گذشتہ کئی دنوں سے سرخیوں میں ہے کہ ’کچھ مبینہ گاؤ رکشکوں نے گائے کی سمگلنگ کے الزام میں جنید اور ناصر نامی دو مسلمان نوجوانوں کو زندہ جلا دیا ہے۔‘
تاہم راجستھان پولیس کے مطابق ان دونوں نوجوانوں سے کوئی مویشی نہیں ملا ہے اور ایف آئی آر میں گائے کی سمگلنگ کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
یہ معاملہ راجستھان اور ہریانہ کے پولیس تھانوں کے درمیان پھنسا ہوا ہے،یہی نہیں بلکہ ہریانہ پولیس نے راجستھان پولیس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی ہے۔ جہاں ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت ہے وہیں راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہے۔
25 سالہ ناصر اور 35 سالہ جنید کو جو آپس میں رشتے دار تھے، 16 فروری کو بھوانی میں زندہ جلا کر مارا گیا ہے اور ان کے خاندان کا الزام ہے کہ انھیں بجرنگ دل سیاسی جماعت کے گاؤ رکشکوں نے راجستھان کے بھرت پور ضلع سے اغوا کر کے ہلاک کیا ہے۔
جبکہ وقوع کے دن ان کے گھر والے انھیں گھاٹمیکا گاؤں میں تلاش کر رہے تھے۔
گاؤ رکشکوں کی جانب سے ملزموں کی حمایت میں ایک بڑی پنچائیت بھی بلائی گئی ہے، لیکن اس سب کے درمیان زندہ جلائے گئے مسلمان نوجوانوں کے اہل خانہ انصاف کی فریاد کر رہے ہیں۔
ناصر کی بڑی بہن ماموری نے جو انتہائی رنجیدہ ہیں، بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بھائی کی پیشانی تک نہیں دیکھی، اسے پولی تھین میں بند کر کے لایا گیا، ہم نے چھوٹی اور بڑی جلی ہوئی لاشوں کی بنیاد پر بھائی کی شناخت کی، ہم اس کا چہرہ تک نہیں دیکھ سکے۔۔۔اسےقبر کی مٹی تک نہیں ملی۔‘
ادھر گھر کے صحن میں بے فکر کھیلتے بچوں کے درمیان بیٹھی جنید کی ساس بینا کا دکھ بھی ایسا ہی ہے، جو اپنے داماد جنید کی نماز جنازہ تک نہیں پڑھ سکیں۔
جنید کے بہنوئی وارث کا کہنا ہے کہ جب جنازہ ہی نہیں ہوا تو نمازِ جنازہ کیسی؟
اس کی وجہ یہ تھی کہ ناصر اور جنید کی لاشیں جل کر راکھ ہو چکی تھیں اور لاشوں کے نام پر کچھ ہڈیاں ہی بچی تھیں۔
بھرت پور سے بھوانی تک کئی سوالات
اس واقعے کے تار راجستھان کے بھرت پور سے ہریانہ کے بھوانی ضلعتک جڑے ہوئے ہیں۔ میڈیا میں کئی رپورٹس آچکی ہیں لیکن اس واقعے سے جڑے کچھ حقائق ایسے ہیں جو اب تک سامنے نہیں آسکے۔
بی بی سی کی ٹیم جنید اور ناصر کی موت کی تحقیقات کے لیے اس واقعے سے جڑی ہر جگہ پر گئی۔ اس تفتیش کے دوران ہماری ملاقات کچھ ایسے عینی شاہدین سے ہوئی جنھوں نے جنید اور ناصر کی موت کے حوالے سے کئی نئے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔
یہ حقائق پولیس کی تفتیش اور ملزمان کے دعوؤں پر سوال اٹھاتے ہیں۔
بی بی سی کی ٹیم سب سے پہلے ہریانہ کے بھوانی ضلع کے بارواس گاؤں پہنچی جہاں 16 فروری کی صبح ایک جلی ہوئی بولیرو کار ملی تھی۔
جلی ہوئی گاڑی سے باقیات برآمدBBCجنید اور ناصر کی باقیات اس گاڑی سے ملی ہیں
بارواس گاؤں کے رہنے والے امیت ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے سب سے پہلے جلی ہوئی کار کو دیکھا۔
عینی شاہد امیت کا کہنا ہے کہ ’مجھے یقین نہیں تھا کہ گاڑی کے اندر انسانی لاشیں ہو سکتی ہیں۔ جب میں نے غور سے دیکھا تو اندر ہڈیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ لاشوں کے نام پر صرف ڈھانچے ہی نظر آ رہے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک انسانی ڈھانچہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر تھا اور دوسراکار کی درمیانی سیٹ پر تھا۔‘
گاؤ رکشک لاشوں کو تھانے لے گئے؟
اہل خانہ کا الزام ہے کہ ناصر اور جنید کو مبینہ طور پر گاؤ رکشکوں نے اغوا کیا، انھیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیااور اس کے بعد مبینہ طور پر گاؤ رکشک دونوں کو ہریانہ کے فیروز پور جھرکا کے پولیس تھانے لے گئے۔
جھرکہ پولیس پر الزام ہے کہ انھوں نے ناصر اور جنید کی بات نہیں سنی اور انھیں اپنی تحویل میں لینے کے بجائے مبینہ گاؤ رکشکوں کے حوالے کر دیا جس کے بعد انھوں نے مبینہ طور پر دونوں کو زندہ جلا دیا۔
ہریانہ کے فیروز پور جھرکا پولیس کے خلاف لگائے گئے سنگین الزامات کا جواب دیتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ورون سنگلا کا کہنا ہے کہ ’نوہ تھانے کی پولیس کے خلاف بھی کچھ الزامات ہیں جن کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اوشا کنڈو کی صدارت میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔‘
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ہریانہ پولیس خود اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیسے کرے گی؟ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اوشا کنڈو اس سوال کا جواب نہیں دے سکے۔
انھوں نے کہا کہ پہلے تحقیقات ہونے دیں پھر آپ کے سامنے رکھی جائے گی، تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقات کی جائیں گی۔
کیا ہریانہ حکومت مونو مانیسر کو بچا رہی ہے؟BBCمونو مانیسر کا نام بھی ملزمان میں شامل ہے
متاثرہ خاندان کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں مونو مانیسر کا نام سامنے آیا ہے۔
خود کو ہریانہ میں بجرنگ دل کے گاؤ رکشکوں کا ریاستی سربراہ بتانے والے مونو مانیسر نے سوشل میڈیا پر تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
مونو مانیسر ویڈیو کال پر نیوز چینلز سے بات کر رہے ہیں، اس کے باوجود پولیس انھیں پکڑنے میں ناکام ہے۔ اس سوال کے جواب میں ڈی سی پی مانیسر (ہریانہ) منبیر سنگھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم کارروائی کر رہے ہیں جو قانونی طور پر درست ہے۔
جنید اور ناصر کی موت پر نہ صرف مبینہ گاؤ رکشکوں پر بلکہ راجستھان اور ہریانہ پولیس پر بھی سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اہل خانہ کا سوال ہے کہ ہریانہ پولیس نے بروقت کارروائی کیوں نہیں کی؟
خاندان کا سوال ہے کہ کیا مبینہ گاؤ رکشکوں کو ہریانہ حکومت سے سرکاری تحفظ مل رہا ہے؟ کیا جنید اور ناصر کی جان بچائی جا سکتی تھی؟
ان سوالات کے پیچھے چھپے حقائق کو سمجھنے کے لیے عینی شاہدین سے پورا واقعہ جاننا ضروری ہے۔
کب کیا ہوا؟
14فروری کی رات آٹھ سے دس بجے: ناصر کے چھوٹے بھائی حامد کے مطابق، ناصر اور جنید، جنید کے بھائی جعفر کی بڑی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں بولیرو کار میں گھر سے نکلے تھے۔ جنید اور ناصر کا گھر راجستھان کے بھرت پور ضلع کے گھاٹمیکا گاؤں میں ہے۔
اہل خانہ کے مطابق بولیرو کار ناصر کے دوست حسین کی تھی جو ہریانہ کے علاقے نوہ کا رہنے والا ہے۔
15 فروری، صبح چار بجے کے قریب: عینی شاہد قاسم کا کہنا ہے کہ پیروکا گاؤں (راجستھان) میں کچھ لوگوں نے ناصر اور جنید کو سڑک کنارے پیٹتا اور پھر وہاں سے لے گئے۔ جب ناصر اور جنید کو پیروکا گاؤں سے اٹھایا گیا تو قاسم وہاں سے تقریباً 200 میٹر دور اپنی دکان میں سو رہے تھے۔
عینی شاہد قاسم نے بتایا کہ ’صبح کے تقریباً چار بجے تھے، اچانک کار حادثے کی آواز آئی۔ میں چیخ و پکار سن کر باہر نکلا۔ تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔
’میں نے دیکھا کہ وہاں 10 سے 15 لوگ تھے، وہ لاٹھیوں سے لڑ رہے تھے۔ جب میں نے اپنے دوستوں کو آواز دی تو وہ نوہ گاؤں (ہریانہ کی طرف جانے والی سڑک) کی طرف بھاگ گئے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں ’جب ہم موقع پر پہنچے تو وہاں گاڑی کے کچھ شیشے ٹوٹے ہوئے پڑے تھے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کچھ ٹوٹے ہوئے شیشوں کو تفتیش کے لیے راجستھان پولیس لےگئی۔‘
15 فروری، صبح پانچ بجے کے قریب: پیروکا گاؤں سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہریانہ کے علاقے فیروز پور جھرکا پولیس سٹیشن کے باہر کام کرنے والے ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پولیس سٹیشن کے باہر تین کاریں کھڑی تھیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ایک بولیرو کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے، دوسری بولیرو کے ساتھ ایک سکارپیو جیپ بھی کھڑی تھی، وہ تھانے کے باہر گاڑی کی توڑ پھوڑ بھی کر رہے تھے۔‘
بی بی سی سے بات چیت میں عینی شاہد نے جس سفید سکارپیو گاڑی کا ذکر کیا ہے اسے راجستھان پولیس نے بدھ کو ہریانہ کے جند ضلع سے برآمد کیا ہے۔
عینی شاہد نے بتایا کہ ’تقریباً دس 20 منٹ کے بعد وہ یہاں سے چلے گئے۔‘ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس نے ناصر اور جنید کو گاڑی میں دیکھا، عینی شاہد نے کہا کہ ’دیکھنا مشکل تھا کیونکہ وہ ان سے دور کھڑے تھے۔‘
15فروری، صبح آٹھ بجے کے قریب:ناصر کے بھائی حامد نے بتایا کہ انھیں صبح سویرے اطلاع ملی کہ کچھ گاؤ رکشکوں نے ان کے بھائی اور جنید پر حملہ کیا ہے اور انھیں ہریانہ کے فیروز پور جھرکہ میں واقع کرائم انویسٹی گیٹو ایجنسی (سی آئی اے) کے سٹیشن لے جایا گیا ہے۔
حامد کا کہنا ہے کہ اطلاع ملتے ہی وہ صبح آٹھ بجے ہریانہ کے فیروز پور جھرکا تھانے پہنچے۔ ان کے مطابق وہاں پہنچ کر سی آئی اے پولیس نے انھیں بتایا کہ ’وہ جنید اور ناصر کو ہمارے پاس لائے تھے لیکن ان کی حالت تشویشناک تھی۔‘
BBCملزمان کی جانب سے جنید اور ناصر کو ہریانہ کے فیروزپور پولیس سٹیشن لایا گیا تھا
سی آئی اے پولیس نے کہا کہ ’ہم انھیں کہیں لے کر نہیں گئے اور اب پتہ نہیں کہ وہ انھیں کہاں لے گئے ہیں۔‘
جنید اور ناصر کو اس وقت تک زندہ جلایا نہیں گیا تھا۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ سی آئی اے پولیس نے انھیں خود ان مبینہ گاؤ رکشکوں کے نام بتائے جو ان کے بھائیوں ناصر اور جنید کو تھانے لے کر آئے تھے۔ ان ناموں کی مدد سے اہل خانہ نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
آٹھ بجے کے بعد ان کے اہل خانہ نے جنید اور ناصر کو کئی ہسپتالوں میں تلاش کیا، کئی تھانوں میں شکایت کی لیکن وہ کہیں نہیں ملے۔
جبکہ نوہ ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ نے ہریانہ پولیس کے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ راجستھان پولیس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
15 اور 16 فروری کی رات، تقریباً 12.30 بجے: جنید اور ناصر کو فیروز پور جھرکا تھانے سے تقریباً 200 کلومیٹر دور ہریانہ کے بھوانی ضلع کے بارواس گاؤں میں ان کی کار سمیت جلا دیا گیا۔
مقامی رہائشی امیت نے بتایا کہ ’میرا گھر یہاں سے 300 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ تقریباً 12.34 منٹ کا وقت تھا۔ انھوں نے گاڑی کا ٹائر پھٹنے جیسی ایک زور دار آواز سنی، اس وقت گاؤں میں شادی تھی۔ اس لیے کسی نے زیادہ توجہ نہیں دی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’رات کے 12 بجے تک سڑک پر کوئی گاڑی نہیں تھی کیونکہ لوگ آتے جاتے تھے، لیکن چار بجے یہاں ایک گاڑی تھی، میرے والد صبح چہل قدمی کے لیے جاتے ہیں، انھوں نے گاڑی دیکھی۔ اور گھر آکر بتایا۔‘
کار کو جلانے کی پہلی اطلاع بارواس کے رہنے والے امرجیت نے پولیس کو دی۔ عینی شاہد امرجیت نے بتایا کہ ’ہم یہاں آٹھ بجے کے قریب آئے تھے، گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ جب ہم نے گاڑی کے اندر دیکھا تو شک ہوا کہ اندر دو لاشیں ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ کھوپڑیاں نظر آ رہی تھیں، پھر میں نے 112 پولیس کا نمبر تقریباً نو بجے ڈائل کیا اور پولیس پندرہ منٹ بعد پہنچی۔‘
16 فروری ، صبح 9 بجے ہریانہ پولیس کے سینئر افسران موقع پر پہنچ گئے۔ ہریانہ کی فارنزک ٹیم نے صبح 11 بجے پہنچ کر تفتیش کی اور جلی ہوئی بولیرو کار کا چیسس نمبر نکالا۔
ہریانہ پولیس نے چیسس نمبر سے کار کے مالک کا پتہ لگایا۔ گاڑی کے مالک کو فون کرنے پر ہریانہ پولیس کو اطلاع ملی کہ جنید اور وارث گاڑی لے گئے ہیں، جن کے اہل خانہ کو ان کی تلاش ہے۔
ناصر کے بھائی نے کہا ’ہریانہ پولیس سے اطلاع ملنے کے بعد، کنبہ کے لوگ گوپال گڑھ پولیس سٹیشن (راجستھان) کے ایس ایچ او اور ایڈیشنل ایس پی کے ساتھ ہریانہ کے لیے روانہ ہوئے۔
16 فروری کی شام 5 بجے کے قریب – راجستھان پولیس متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ اس مقام پر پہنچی جہاں کار کو آگ لگائی گئی تھی۔ وہاں موجود ایک مقامی رہائشی امیت کے مطابق پولیس کے ساتھ ڈاکٹر بھی آئے تھے۔
انھوں نے بتایا ’راجستھان کی فرانزک ٹیم نے ہڈیوں کو جانچ کے لیے ایک باکس میں ڈالا، باقی ہڈیوں کے لیے ایک کمپوسٹ بیگ منگوایا اور اسے بھر کر باقیات خاندان کے حوالے کر دی گئیں۔‘
16 فروری کی رات تقریباً 9 بجے – راجستھان کی بھرت پور پولیس کرین کی مدد سے جلی ہوئی کار کو گوپال گڑھ تھانے لے گئی۔
دو ریاستوں اور پولیس کے درمیان تصادم
متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ اگر پولیس اغوا کے فوراً بعد کارروائی کرتی تو ناصر اور جنید کو مبینہ گاؤ رکشکوں سے بچایا جا سکتا تھا۔
ان کے مطابق وہ تقریباً 20 گھنٹے تک راجستھان اور ہریانہ پولیس کے مختلف تھانوں کے چکر لگاتے رہے۔
16 فروری کو گھر والوں کی شکایت پر پولیس نے راجستھان کے گوپال گڑھ پولیس سٹیشن میں پانچ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔
ایف آئی آر کے مطابق، ’انل، مسٹر کانت، رنکو سینی، لوکیش سنگھلا اور مونو کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 143 (غیر قانونی اسمبلی کے ممبر ہونے کی وجہ سے)، 365 (اغوا)، 367 (اغوا کر کے تکلیف پہنچانا)، 368 (مغوی شخص کو قید رکھنے) کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
راجستھان پولیس کے ڈائریکٹر جنرل امیش مشرا نے پیر کو کہا کہ ایف آئی آر میں چار نئے ملزمان کے نام شامل کیے گئے ہیں۔ اس بیان کے بعد کیس میں کل 9 ملزمان نامزد ہیں۔
بدھ کو راجستھان پولیس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں آٹھ ملزمان کی تصاویر جاری کی گئیں۔ ان میں مونو مانیسر کا نام اور تصویر شامل نہیں تھی۔
بی بی سی کے موہر سنگھ مینا نے جب دنیش ایم این، اے ڈی جی، سی آئی ڈی سی بی سے پوچھا کہ مونو مانیسر کا نام ایف آئی آر میں درج ہے، تو ان کی تصویر اور نام کیوں جاری نہیں کیا گیا؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ایف آئی آر میں جو نام ہیں، ان کے خلاف تحقیقات میں شواہد ملے تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔‘
راجستھان پولس نے اس معاملے میں ایک ملزم رنکو سینی کو ہریانہ کے فیروز پور جھرکا پہنچ کر گرفتار کیا ہے۔
دوسری جانب راجستھان پولیس نوہ کے رہنے والے ملزم شری کانت کی گرفتاری کے لیے ہریانہ گئی تھی۔ خاندان کا الزام ہے کہ راجستھان پولیس نے شری کانت کی حاملہ بیوی کو دھکا دیا، طبیعت بگڑنے پر اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے رحم میں بچے کی موت کی تصدیق کی۔
اس معاملے میں نوہ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ورون سنگلا کا کہنا ہے کہ راجستھان پولیس کے 30 سے 40 نامعلوم پولیس اہلکاروں کے خلاف ہریانہ کے نگینہ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
راجستھان پولیس پر الزام ہے کہ ان کے دھکے سے ملزم شری کانت کی بیوی کے پیٹ میں بچہ مر گیا۔ دوسری جانب راجستھان پولیس کا کہنا ہے کہ 'ملزم شری کانت کی گرفتاری کے لیے چھاپے کے دوران راجستھان پولیس اس کے گھر میں داخل نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی خاتون کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور نہ ہی اس پر حملہ کیا گیا۔‘
’ہم نے راکھ دفن کی ہے‘ BBCناصر کے گھر کا منظر
گزشتہ کئی دنوں سے ناصر اور جنید کے گھر کے باہر میڈیا والوں کی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ کچھ سماجی کارکن بھی اہل خانہ سے ملنے دور دراز سے آرہے ہیں۔
ناصر کو حال ہی میں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت پہلی قسط کے طور پر15 ہزار روپے ملے تھے۔ اس رقم سے ناصر نے گھر بنانے کے لیے بنیاد کھودی، پتھر منگوائے، لیکن اب اسے کوئی دیکھنے والا نہیں۔
تقریباً 15 سال قبل ناصر نے فارمینہ سے شادی کی لیکن کسی وجہ سے ان کے ہاں اولاد نہ ہو سکی۔ ایسے میں اس نے اپنے چھوٹے بھائی حامد کے دو بچوں کو گود لے لیا تھا۔ ناصر کا خواب تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے جلد گھر بنائے، لیکن یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔
جنید کا گھر ناصر کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ جنید قریب ہی کریانہ کی دکان چلاتے تھے۔
جنید نے اپنے پیچھے بیوی اورچھ بچے چھوڑے ہیں۔ لیکن ان پر اپنے بھائی کے سات بچوں کی بھی ذمہ داری تھیں جو ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہیں۔
جنید کے والدین پہلے ہی فوت ہو چکے ہیں۔ جنید کے بہنوئی وارث کا کہنا ہے کہ ’نماز جنازہ بھی نہیں پڑھائی گئی، یہ ہمارے لیے کوئی چھوٹی بات نہیں، ہم نے راکھ دفن کی ہے۔‘
’گھر میں 13 بچے ہیں جن کی پرورش جنید نے کی ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ دونوں گھر بند ہیں۔ اب اوپر والا ہی بچوں کی دیکھ بھال کرے گا۔‘
مسلم اکثریتی گاؤں میں ہندو سرپنچ
دونوں کی موت کے بعد نہ صرف خاندان بلکہ پورا گاؤں صدمے میں ہے۔ ایک مقامی شخص اسماعیل بتاتے ہیں کہ ’گھاٹمیکا گرام پنچایت میں پانچ گاؤں ہیں، جن میں راولکا، کنواری، فتح پور، جھنڈی پور اور گھٹمیکا شامل ہیں۔‘
’اس گرام پنچایت میں تقریباً 98 فیصد مسلم آبادی ہے، پھر بھی اس کے لوگوں نے ایک ہندو خاندان کو تیسری بار گاؤں کا سرپنچ منتخب کیا ہے۔‘
’گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی ہندو مسلم نہیں کیا، لیکن بجرنگ دل کے لوگ ایسا کر کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
’رنکو کو پھنسایا جا رہا ہے‘BBCرنکو کی بیوی کا کہنا ہے کہ ان کا شوہر بےقصور ہے
ناصر اور جنید کے قتل کے ملزم رنکو سینی کی گرفتاری کے بعد ان کی اہلیہ اور والدہ بھی صدمے میں ہیں۔
خاندان کے مطابق، رنکو سینی ڈرائیونگ کا کام کرتے ہیں اور گاڑی کے بکنگ سے روزانہ چار سے پانچ سو روپے کما لیتے ہیں۔
اپنے شوہر کو بے قصور بتاتے ہوئے رنکو کی بیوی گیتا کہتی ہیں ’وہ اس دن وہاں نہیں تھا۔ یہ جھوٹی خبر ہے۔ وہ بے قصور ہے۔ اسے انصاف ملنا چاہیے، اسے پھنسایا جا رہا ہے۔‘
گیتا کہتی ہیں ’وہ (رنکو) 15 فروری کی صبح تقریباً آٹھ بجے الور کی بکنگ کے لیے گیا تھا۔ پھر شام تقریباً پانچ بجے گھر واپس آیا۔ گھر پر چائے پینے کے بعد کار بکنگ پر چلا گیا اور رات کو گھر واپس آیا۔‘
’میں نے خود دروازہ کھولا۔ 16 فروری کو دوپہر 12 بجے، وہ بھیواڑی بکنگ کے لیے گیا اور شام کو پولس نے اسے پکڑ لیا۔‘
رنکو سینی کی ماں کا کہنا ہے کہ ’وہ تین چار سال سے گائے کی خدمت کا کام کر رہا ہے، وہ بجرنگ دل میں ہے، وہ کوئی برا کام نہیں کر رہا تھا۔‘