Getty Images
'جب پولیس آئی تو میں نے انھیں اپنا پاکستان کا ویزا ٹریکنگ نمبر دکھایا جو آن لائن ویزا سسٹم میں فعال تھا۔ میں نے انھیں اپنے پاسپورٹ پر سپین کے ویزے کی بھی مہر دکھائی۔۔۔ یہ سب بتانے کے باوجود پولیس مجھے حراستی مرکز لے گئی۔'
14 اپریل کے روز فرشتہ سدید نامی افغان خاتون کو اسلام آباد پولیس نے حراست میں لیا اور ان کی رہائی تین دن بعد ممکن ہو پائی۔ وہ 2022 سے پاکستان میں میڈیکل ویزے پر رہائش پذیر ہیں۔ اس ویزے کی میعاد ختم ہو چکی ہے مگر انھیں پاکستان سے کسی تیسرے ملک جانے کے لیے ایگزٹ پرمٹ کا انتظار ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'مجھے میرے فلیٹ سے اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ میرے ویزے کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔'
دورانِ حراست درپیش حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا اس حراستی مرکز میں نہ صرف گندگی تھی بلکہ یہاں کھانے پینے اور آرام کے لیے نامناسب انتظامات تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ چونکہ ان کا کیس سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا تھا اس لیے 'حکام میرے ساتھ نسبتاً مہربان تھے۔'
فرشتہ پاکستان میں موجود اِن لاکھوں افغان پناہ گزین میں سے ایک ہیں جنھیں ملک بدری کا سامنا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اب تک نو لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزین کو ملک بدر کیا جا چکا ہے جبکہ پروف آف ریزیڈینس (پی او ار) کارڈ کے حامل افغان باشدوں کو 30 جون 2025 کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔
تاہم اسی اثنا میں خیبر پختونخوا سے افغان سیٹرن کارڈ کے حامل افغان پناہ گزینوں اور غیر قانونی تارکین وطن کی افغانستان واپسی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
دوسرے مرحلے کے تحت سنیچر کے روز 348 افغان سیٹزن کارڈ کے حامل پناہ گزین اور 1086 غیر قانونی تارکین وطن کو افغانستان بھیجا گیا۔مجموعی طور دوسرے مرحلے میں25142 افغان سیٹزن کارڈ ہولڈرز جبکہ 17892 غیر قانونی تارکین وطن کو افغانستان بھجوایا گیا۔
دوسرے مرحلے کے تحت مجموعی طور پر 43034 افراد کو طورخم سرحد سے افغانستان بجھوایا گیا۔ جس میں اسلام آباد سے1982، پنجاب سے 16624، گلگت سے 2, اپاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے 1019 اور سندھ سے 44 افراد کو افغانستان بھجوایا گیا کیا گیا۔
پاکستان حکام کے مطابق رضاکارانہ طور 17067 افغان سیٹزن کارڈ ہولڈرز افغان پناہ گزین طور خم سرحد سے افغانستان واپس گئے۔ ستمبر 2023 سے اب تک خیبر پختونخوا کے مختلف سرحدوں سے مجموعی طور پر 5 لاکھ، 14 ہزار، 959 افراد کو افغانستان بھجوایا گیا۔
فرشتہ کہتی ہیں کہ افغان پناہ گزین کے لیے افغانستان 'وطن واپسی نہیں بلکہ خطرے، جبر اور ممکنہ موت کی طرف واپسی ہے۔'
وہ جانتی ہیں کہ انھیں جبری طور پر افغانستان واپس بھیجنا پناہ گزین کے اُن عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے جو پاکستان تسلیم کرتا ہے، مگر وہ کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'میں صرف حکام سے درخواست کرتی ہوں کہ براہ کرم مجھ جیسے لوگوں کے ساتھ مہربانی کریں۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان میں ویزے کی توسیع یا ایگزٹ پرمٹ حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے۔'
خیال رہے کہ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ افغان شہریوں کی واپسی کا فیصلہ 'ملک میں دہشت گردی کے تناظر میں' کیا گیا ہے۔
Getty Imagesپاکستانی حکام نے افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں 'ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک ہو رہا ہے'
ایک سال قبل ویزے پر پاکستان آنے والی افغان صحافی فہیمہ زاہد کا کہنا ہے کہ پاکستان نے حال ہی میں ویزے کے اجرا کے لیے نئے قوائد و ضوابط جاری کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے ویزے کی تجدید نہیں کر پا رہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ '25 فروری کو امریکہ کی طرف سے سپورٹ لیٹر ہونے کے باوجود مجھے پاکستانی پولیس نے گرفتار کر لیا۔ مجھے کئی دنوں تک حاجی کیمپ میں رکھا گیا۔'
ان کا دعویٰ ہے کہ حراستی مرکز میں ان سمیت دیگر افغان پناہ گزین کو تضحیک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سنیچر کو کابل میں طالبان قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان پناہ گزین کو 'عزت و احترام کے ساتھ وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔'
فہیمہ زاہد کا کہنا ہے کہ 'کیمپ کے اندر ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔ ہمارے فون چھین لیے گئے اور رات کو پولیس بار بار ہماری گنتی کرنے آتی تھی تاکہ ان کو یقین رہے کہ کوئی فرار نہیں ہوا۔'
'کیمپ کے اندر کے حالات غیر انسانی تھے۔ بچے بیمار تھے، مناسب خوراک نہیں تھی اور صورتحال خوفناک تھی۔ خواتین رو رو کر کہہ رہی تھیں کہ انھیں ایسے حالات میں رہنے کی بجائے ملک بدر ہونا بہتر ہو۔'
انھیں اس دوران کوئی قانونی اتھارٹی یا ادارہ نظر نہیں آیا جو ا کی مدد کر سکے۔ 'ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک بدری کی آخری تاریخ کے قریب آنے پر دباؤ اور تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ میں ویزا حاصل کرنے کے زیادہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتی اور اب مجھے ملک بدر کیے جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔'
'ہمیں کہاں واپس جانا چاہیے؟ اگر ہم اپنے ملک لوٹتے ہیں تو ہمیں موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ملک میں جہاں ہم نے پناہ مانگی تھی، یہاں ہمارے لیے کوئی لچک یا تحفظ نہیں ہے۔'
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغان باشندوں کو پاکستان میں قیام کے لیے توسیع نہیں دی جائے گی تاہم ان سے عزت و احترام سے پیش آ یا جائے گا۔
پاکستانی حکام نے افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
18 اپریل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا تھا کہ 'ون ڈاکومنٹ رجیم پالیسی کے تحت اب تک 9 لاکھ 7 ہزار 39 افغانی واپس جا چکے ہیں۔ دوسرے مرحلے کے تحت 25 ہزار افغان سیٹزن کارڈ ہولڈرز سمیت 84 ہزار 869 افغانیوں کو واپس بھجوایا گیا ہے۔'
وہ کہتے ہیں کہ 'ان میں سے 75 فیصد ایسے افغانی تھے جن کے پاس کسی قسم کی دستاویزات نہیں تھیں۔ 30 اپریل کے بعد ری سیٹلمنٹ کے لیے پاکستان میں موجود افغان شہریوں کا کیس ٹو کیس جائزہ لیا جائے گا۔'
طلال چوہدری نے کہا ہے کہ 'پاکستان میں غیر قانونی طور پر موجود افغان شہریوں کی واپسی کے لیے مقرر مدت میں کوئی توسیع نہیں ہو گی۔ 'کوئی ایسا سوچے بھی نہ۔'
انھوں نے کہا کہ 'حکومت نے ایک اور فیصلہ کیا جس سے چاروں صوبوں کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ آج کے دن سے اگر کسی غیر قانونی غیر ملکی شہری کو کرائے پر کوئی جگہ، کوئی دکان یا مکان دے گا تو وہ بھی ذمہ دار ہو گا۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'صرف اس غیر ملکی کو مکان، دکان یا ملازمت دی جا سکتی ہے جس کے پاس قانونی دستاویزات ہوں۔ اسی طرح ہوٹل میں رہائش، منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد پاکستانی شہری صرف اسی شخص کو دے سکتے ہیں جس کے پاس قانونی دستاویزات ہوں۔'
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں واپس بھیجے جانے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے قائم کیا گیا ٹرانزٹ پوائنٹ 'کوئی تھانہ یا جیل نہیں بلکہ حج کمپلیکس ہے جہاں ہر طرح کی سہولتیں دستیاب ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ پاکستانی وزارت خارجہ افغان حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ ان کے شہری جب افغانستان پہنچیں تو وہ وہاں باعزت اور پرامن طور پر آباد ہو سکیں۔
طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ 'جدید دنیا میں قانونی دستاویزات کے بغیر کسی ملک میں رہنا ممکن نہیں۔ بیرون ملک سے بہت سی شکایات ملیں کہ پاکستان کے جعلی پاسپورٹ اور شناختی دستاویزات ان لوگوں نے استعمال کیے جو پاکستانی شہری نہیں تھے۔ ایسے ہزاروں پاسپورٹ بیرون ملک پکڑے گئے جس کی پاکستان کو شکایت کی گئی۔'
خیال رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے تقریباً تیس لاکھ افغان پناہ گزین کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد بہت سے افغان، جو جنگ اور طالبان حکومت سے بچنے اور پناہ کے لیے کئی سالوں سے پاکستان میں رہ رہے تھے، ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا کر رہے ہیں۔
لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان بدر کرنے کی چار ممکنہ وجوہات کیا ہیں31 مارچ سے افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز بھی غیرقانونی: اس کے بعد کون سے افغان شہری پاکستان میں رہیں گے؟افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے بے دخلی: ’پاکستان میں ہمیں افغان، افغانستان میں پاکستانی سمجھا جاتا ہے‘طورخم سرحد پر درجنوں افغان بچوں کی دراندازی پر تنازع: وہ بچے جو ’چند سو روپے کے لیے‘ اپنی جان پر کھیل جاتے ہیںGetty Imagesوزیر مملکت کا کہنا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کے لیے قائم کیا گیا ٹرانزٹ پوائنٹ 'کوئی تھانہ یا جیل نہیں بلکہ حج کمپلیکس ہے جہاں ہر طرح کی سہولتیں دستیاب ہیں‘ افغان پناہ گزین کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اسلام آباد میں رہنے والے افغانوں کو پاکستانی حکام کے بیانات کے بعد نسلی پروفائلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے وزیر داخلہ نے 26 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے بعد افغان پناہ گزین پر سیاسی بدامنی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
سینٹر فار مائیگریشن سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 'پاکستانی پولیس اور دیگر حکام کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ رپورٹ کردہ بدسلوکی میں بڑے پیمانے پر حراست، جائیداد اور مویشیوں کی ضبطی اور شناختی دستاویزات کی جان بوجھ کر تباہی، جس کے نتیجے میں ہزاروں افغان گزینوں اور پناہ کے متلاشیوں زبردستی بے ہو رہے ہیں۔'
رپوٹس کے مطابق پاکستان بھر میں انتالیس حراستی مراکز قائم کیے گئے ہیں جو کسی مخصوص قانون یا قانونی نظام کے تحت نہیں بنائے گئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 'کم از کم سات حراستی مراکز میں قیدیوں کے لیے کوئی قانونی حقوق نہیں ہیں جیسے وکیل کا حق یا خاندان کے افراد کے ساتھ بات چیت، اس طرح زیر حراست افراد کے بنیادی حقوق سے انکار اور منصفانہ ٹرائل اور آزادی کے بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی ہے۔'
اس حوالے سے وکیل مونیزا کاکڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'اگر وہ کسی افغان کے قیام کے حق کے لیے کیس لڑنا بھی چاہیں تو بھی تو وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ افغان پناہ گزین کو حراستی مراکز میں لے جایا جا رہا ہے جہاں کوئی بھی ان تک پہنچنے کے قابل نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ عدالت میں ان کی نمائندگی کرنے سے بھی قاصر ہیں۔'
تاہم پاکستانی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق کے مطابق حال ہی میں دونوں ممالک نے جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کو 15 ماہ کے وقفے کے بعد بحال کیا ہے۔ افغان وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'وزیر خارجہ نے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی موجودہ صورتحال اور دونوں ممالک کے درمیان متعدد مسائل بالخصوص افغان گزینوں کی حالیہ جبری ملک بدری کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔'
پاکستان میں افغان شہریوں کے کیا حقوق ہیں؟
پاکستان میں افغان پناہ گزین کو ایک پیچیدہ قانونی صورتحال کا سامنا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے 1951 کے ریفیوجی کنونشن (پناہ گزین کے حقوق) کی توقیق نہیں کی اور ملک میں پناہ گزینوں سے متعلق مخصوص قوانین موجود نہیں ہیں۔
لیکن اقوام متحدہ کی پناہ گزین کی تنظیم یو این ایچ سی آر کے تعاون سے پاکستان کے پاس افغان پناہ گزین کے لیے ایک نظام موجود ہے اور پاکستانی حکومت بعض بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پابند ہے۔
پاکستان میں مقیم افغان شہری عام طور پر چار قانونی حیثیت کے زمروں میں آتے ہیں: یو این ایچ سی آر سے رجسٹرڈ پی او آر کارڈ، پاکستانی حکومت کی طرف سے جاری کردہ افغان سٹیزن کارڈ، غیر دستاویزی افراد (پناہ گزین) اور کئی اقسام کے ویزے کے حامل افراد۔
پاکستان میں پناہ گزینوں کے لیے قانونی فریم ورک بڑی حد تک 1946 کے فارن ایکٹ پر مبنی ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت کوئی وجہ دیے بغیر کسی بھی 'غیر ملکی' کو پاکستان چھوڑنے پر پابند کر سکتی ہے۔
پی او آر کارڈ
پاکستان میں پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ والے افغان گزینوں کو ملک میں عارضی طور پر رہائش کا حق حاصل ہے، اور وہ غیر قانونی داخلے یا قیام سے متعلق 1946 کے فارن ایکٹ کی دفعات سے مستثنیٰ ہیں۔
یہ کارڈ شناخت فراہم کرتا ہے، نقل و حرکت کی آزادی کی اجازت دیتا ہے اور تعلیم اور صحت جیسی مخصوص خدمات تک رسائی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں مقیم پی او آر کارڈ ہولڈرز پاکستان میں بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، اپنے نام پر موبائل سِم کارڈ حاصل کر سکتے ہیں، انھیں رہائش رکھنے اور کاروبار کرنے کی بھی اجازت ہے۔
پی او آر کارڈ سفری دستاویز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا اور بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ لیکن اب یہ کارڈز صرف 30 جون تک کارآمد ہیں۔
افغان سٹیزن کارڈ
افغان شہری کارڈ (اے سی سی) ایک عارضی شناختی دستاویز ہے جو پاکستانی حکومت کی طرف سے رجسٹرڈ افغان شہریوں کے لیے جاری کی جاتی ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو 2007 کے بعد بغیر کسی دستاویزات کے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ یہ غیر دستاویزی افغانوں کو رجسٹر کرنے اور انھیں شناخت فراہم کرنے کا ایک طریقہ ہے، جو انھیں پناہ گزینوں کی حیثیت یا قانونی رہائش کے حامل افراد سے الگ کرتا ہے۔
یہ سفری دستاویز نہیں ہے اور مستقل رہائش کے حقوق نہیں دیتا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق 31 مارچ کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اب غیر قانونی تصور ہوں گے۔
پناہ کے خواہش مند افراد
اس زمرے میں وہ افغان پناہ گزین شامل ہیں جن کے پاس یو این ایچ سی آر یا پاکستانی حکومت سے جاری کیے گئے کوئی سرکاری دستاویزات یا رجسٹریشن نہیں ہے۔ ماضی کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں ایسے افغان باشندوں کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ تھی۔
وکیل مونیزہ کاکڑ کے مطابق 'ان میں سے بہت سے طالبان حکومت کے خوف سے 2021 میں پناہ کے متلاشی کے طور پر پاکستان آئے تھے۔ انھیں ٹوکن دیے گئے لیکن پاکستانی قانون میں ان ٹوکن کی کوئی اہمیت نہیں۔'
کچھ افغان ایسے بھی ہیں جو کسی تیسرے ملک کے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انھیں پہلے ستمبر تک پاکستان میں رہنے کا وقت دیا گیا تھا لیکن حالیہ نوٹیفیکیشن کے مطابق انھیں اپریل تک پاکستان چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔
وکیل عمر گیلانی کے مطابق 'بہت سے افغان میڈیکل ویزوں پر پاکستان آتے ہیں۔ وہ اکثر یہاں ٹرانزٹ کے طور پر رکتے ہیں، اس امید میں کہ ان کو یہاں سے کسی اور ملک کا ویزا مل جاے گا، لیکن انھیں اکثر غلط ویزے پر آنے کی بنیاد پر واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے۔'
Getty Images'حکومت نے چاروں صوبوں کو آگاہ کر دیا ہے کہ اگر کوئی کسی غیر قانونی غیر ملکی شہری کو کرائے پر کوئی جگہ، کوئی دکان یا مکان دے گا تو وہ بھی ذمہ دار ہو گا ’افغانستان میں اصل طاقت‘: روس اب طالبان کو دہشتگرد تنظیم کیوں نہیں سمجھتا؟آپریشن سائیکلون: جب امریکہ نے افغانستان میں ’طالبان‘ کو تیار کیاکیا پاکستان میں افغان شہریوں کو کوئی آئینی تحفظ حاصل ہے؟
پاکستان کا قانون کسی فرد کے ریاست کے ساتھ تعلق کی صرف دو اقسام کو تسلیم کرتا ہے: پاکستانی اور غیر ملکی شہری۔ اس میں پناہ گزینوں کے لیے قانونی تحفظ کا فریم ورک موجود نہیں ہے حالانکہ پاکستان کافی عرصے سے افغان پناہ گزین کے سب سے بڑے میزبانوں میں شامل ہے اور اگر یہاں کسی فرد کے پاس کسی ملک کی شہریت نہ ہو تو اس کے لیے بھی کوئی قانون نہیں ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی ایک رپورٹ میں آئین پاکستان کے آرٹیکل نو کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 'کسی بھی شخص کو قانون کے مطابق زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔۔۔ آرٹیکل 9 تمام افراد پر لاگو ہوتا ہے جس میں پاکستان میں غیر ملکی (بشمول پناہ گزین) شامل ہیں۔ اس لیے یہ ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ پناہ گزینکے بحیثیت فرد، بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔'
'اس کے علاوہ آرٹیکل چار کے مطابق ہر شخص کو قانونی سلوک، زندگی، آزادی، جسم، ساکھ، یا جائیداد کے لیے نقصان دہ کسی بھی عمل سے تحفظ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ آرٹیکل 10 کے مطابق منصفانہ ٹرائل کا حق اور بغیر اطلاع کے گرفتاری یا اور قانونی مشاورت حاصل کرنے کا حق بھی ہے اور تشدد سے تحفظ، اور کسی بھی شخص کے گھر کی عزت اور رازداری کا احترام (آرٹیکل 14)، یہ حقوق پاکستان میں رہنے والے ہر فرد کے لیے 'ناقابلِ تسخیر' تصور کیے جاتے ہیں۔'
پی او آر کارڈ ہولڈر فدا الدین نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن جیسے کئی افغان شہریوں کو بڑی تعداد میں حراست میں لے کر ملک بدر کیا جا رہا ہے لیکن پشاور ہائی کورٹ کے 7 اپریل کو سنائے گئے حالیہ فیصلے نے انھیں کچھ تحفظ فراہم کر دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو 30 جون 2025 تک رہائش کا ثبوت (پی او آر) کارڈ رکھنے والے افغان پناہ گزین کو حراست میں رکھنے اور ملک بدر کرنے سے روک دیا ہے۔
Getty Imagesگذشتہ سال اکتوبر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے تقریباً تیس لاکھ افغان پناہ گزین کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھاپاکستان میں پیدا ہونے والے افغان شہریوں کے کیا حقوق ہیں؟
پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کا سیکشن چار کہتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص خود بخود پیدائشی طور پر پاکستانی شہری بن جاتا ہے۔ لیکن اس کا اطلاق غیر ملکی سفارت کاروں یا 'اینیمی ایلیئنز' پر نہیں ہوتا۔
ایچ آر سی پی کے مطابق اس شق کی وضاحت کے باوجود پاکستانی عدالتوں نے اس کی تشریح کے طریقہ کار میں تضاد پایا ہے خاص طور پر پناہ گزینکے کیسز میں۔
ان کے مطابق پناہ گزین یا خاص طور پر افغان پناہ گزین کو پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کے سیکشن 4 کے ذریعے پیدائشی شہریت حاصل کرنے سے روکنے کی کوئی واضح قانونی بنیاد نہیں ہے۔ 'جہاں تک اینیمی ایلیئنز کا تعلق ہے آج تک کسی بھی قانونی یا پالیسی دستاویز نے افغان پناہ گزین(یا پناہ گزین ) کو اینیمی الیئنز قرار نہیں دیا ہے۔'
ارجمند بانو کاظمی کے مطابق اینیمی الیئنز کی دلیل دو کیسز، غلام سنائی بمقابلہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر، نیشنل رجسٹریشن آفس اور سعید عبدی محمود بمقابلہ نادرا، کے بعد پناہ گزینپر لاگو کی گئی۔ دونوں ہی معاملات میں متعلقہ ہائی کورٹس نے قرار دیا کہ ایسے باپ کے ہاں پیدا ہونے والے بچے جو پناہ گزین کی حیثیت کے ساتھ غیر شہری ہیں، پاکستانی شہریت کے حقدار نہیں ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ تحفظ پاکستان ایکٹ 2014 کے سیکشن 2 (ڈی) میں اینیمی الیئنز ایسے شخص کو کہا گیا جو 'پاکستان کی اپنی شہریت قائم کرنے میں ناکام رہتا ہے اور اس پر شبہ ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ یا بغاوت میں ملوث ہے یا اس کی سرزمین پر طے شدہ جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے اس کی سرزمین کو محروم کرنے میں ملوث ہے۔'
شادی کی صورت میں پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کے کیا حقوق ہیں؟
پاکستانیوں سے شادی کرنے والے افغان شہری عام طور پر پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں جو انھیں کچھ حقوق اور مراعات دیتے ہیں لیکن مکمل شہریت نہیں دیتے۔
اس طرح انھیں پاکستان میں رہنے، کام کرنے اور دیگر حقوق حاصل ہوتے ہیں لیکن وہ ووٹ دینے، پاکستانی پاسپورٹ رکھنے یا الیکشن لڑنے کے اہل نہیں۔ تاہم یہ قانون صرف پاکستانی مردوں سے شادی کرنے والی افغان خواتین پر لاگو ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی خواتین سے شادی کرنے والے غیر ملکی افراد کو پی او سی کارڈ نہیں مل سکتا۔
عالمی قوانین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان نے پناہ گزینوں سے متعلق انسانی حقوق کے متعدد کنونشنز پر دستخط کیے ہیں اور ان کی توثیق کی ہے۔
ارجمند بانو کاظمی کے مطابق اگر پاکستان نے کسی معاہدے کی توثیق نہیں کی تو عدالتیں پھر بھی مخصوص ذمہ داریوں کی پابند ہو سکتی ہیں کیونکہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس) میں درج بعض حقوق روایتی بین الاقوامی قانون کی عکاسی کرتے ہیں۔
پاکستان بین الاقوامی نان ریفولمنٹ قانون کے اصول کا احترام کرنے کا بھی پابند ہے، یعنی وہ پناہ گزینوں کو کسی ایسے ملک میں واپس نہیں بھیج سکتا جہاں ان کی زندگی یا آزادی کو خطرہ ہو۔
اقوام متحدہ کی تشدد اور سزا سے متعلق کنونشن کیٹ کے مطابق اگر اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ کسی شخص کو اپنے ملک واپسی پر تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو میزبان ریاست اس کو کسی دوسری ریاست کے حوالے نہ کرنے کی پابند ہے۔
Getty Imagesپاکستانی خواتین سے شادی کرنے والے غیر ملکی افراد کو پی او سی کارڈ نہیں مل سکتااقوام متحدہ کہاں کھڑا ہے؟
ارجمند بانو کاظمی کے مطابق اس وقت پاکستان میں افغان پناہ گزین کا سٹیٹس بنیادی طور پر تین دستاویزات پر منحصر ہے۔ پہلے دو ایم او یوز ہیں جو ملکی سطح پر لاگو ہوتے ہیں: پاکستان-یو این ایچ سی آر کوآپریشن اگریمنٹ 1993 اور 2003 کا رضاکارانہ وطن واپسی سے متعلق معاہدہ۔
دی سلوشن سٹریٹیجی فار افغان ریفیوجیز (ایس ایس اے آر) 2012 کو تیسری اہم گورننگ دستاویز سمجھا جاتا ہے۔
کوآپریشن اگریمنٹ اس وقت تک قائم ہے جب تک کہ اسے کسی بھی فریق کی طرف سے چھ ماہ قبل نوٹس کے ذریعے ختم نہیں کیا جاتا۔ جبکہ 2003 کا معاہدہ ابتدائی طور پر تین سال کے لیے کیا گیا تھا۔ اس میں مختلف اوقات میں توسیع کی گئی اور آخری بار 2019 میں دستخط کیے گئے تھے، جس کی مدت 2022 تک تھی۔
2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کی واپسی کے بعد اس کی تجدید نہیں کی گئی۔ مگر اب بھی اسے ایک گورننگ دستاویز سمجھا جاتا ہے۔
مارچ 2023 کے دوران پاکستان کی قومی اسمبلی میں یو این ایچ سی آر کے تعاون سے ایک نیشنل ریفیوجی بِل پیش کیا گیا۔بل میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 227 کے مطابق پاکستان میں پناہ گزینوں کی حیثیت حاصل کرنے کے حق کو تسلیم کرنے اور پناہ گزین کی قانونی حیثیت کے ضابطے کے لیے کہا گیا ہے۔
ارجمند بانو کاظمی کے مطابق یہ نوٹ کرنا انتہائی اہم ہے کہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کی واپسی کے بعد پالیسی فریم ورک اور نفاذ کرنے والے پلیٹ فارمز کو انتہائی مشکل کا سامنا ہے۔ پاکستان نے افغان پناہ گزین کی آمد کے خلاف سخت مزاحمت کی ہے اور یو این ایچ سی آر کے مشورے کے باوجود 2022 اور 2023 کے دوران ہزاروں افغان پناہ گزین کو زبردستی ملک بدر کر دیا ہے۔
Getty Imagesطورخم سرحد پر افغانستان میں داخل ہونے انتظار میں موجود افغان پناہ گزین پاکستان میں افغان شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
فی الحال بظاہر پاکستان میں صرف غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کی واپسی کا منصوبہ (آئی ایف آر پی) نافذ العمل ہے۔
ارجمند بانو کے بقول اس منصوبے کےمطابق 'کوئی بھی دستاویز ایک پناہ گزین ہونے کے ثبوت کے طور پر قابل قبول نہیں ہے'، اور ایسے افراد پر لاگو واحد پالیسی ان کے آبائی ملک میں 'رضاکارانہ واپسی' ہے۔ اور بغیر دستاویز کے تمام افراد یا پناہ گزینوں کے خلاف 'فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا اور ان کی وطن واپسی کے لیے متوازی کوششیں کی جائیں گی۔'
20 مارچ 2025 کو ایک پریس کانفرنس کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان یو این ایچ سی آر کی تجاویز کا پابند نہیں
انھوں نے بتایا کہ پاکستان 'ریفیوجی کنونشن کا رکن نہیں۔ ہم نے افغان پناہ گزین کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے، وہ گذشتہ برسوں سے رضاکارانہ طور پر کیا گیا۔'
'ہم نے افغانوں کو اس قسم کی مہمان نوازی کی پیشکش کر کے اپنے حصے سے زیادہ کیا ہے اور ہم ان کا خیرمقدم کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے پاسپورٹ پر پاکستان کا ویزا ہونا چاہیے۔ اور پھر ان کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہاں پر پہلے سے ہی بہت سارے افغان مناسب دستاویزات کے ساتھ رہتے ہیں۔'
طورخم سرحد پر درجنوں افغان بچوں کی دراندازی پر تنازع: وہ بچے جو ’چند سو روپے کے لیے‘ اپنی جان پر کھیل جاتے ہیںلاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان بدر کرنے کی چار ممکنہ وجوہات کیا ہیںافغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے بے دخلی: ’پاکستان میں ہمیں افغان، افغانستان میں پاکستانی سمجھا جاتا ہے‘31 مارچ سے افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز بھی غیرقانونی: اس کے بعد کون سے افغان شہری پاکستان میں رہیں گے؟افغانستان میں لڑکیوں کے لیے سکولوں کی جگہ مدارس، مکمل پردے میں لڑکیاں اب کیا پڑھتی ہیں؟افغان باشندوں کی پاکستان سے واپسی: ’کسی اور ملک نہیں جا سکتے، افغانستان میں خطرات ہیں اور یہاں اب کوئی رہنے نہیں دے گا‘