Getty Imagesدنیا میں اب پانچ سال سے کم عمر کے جتنے بچے ہیں اس سے کہیں زیادہ آبادی 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی ہے
لوسیل رینڈن نے جب رواں برس جنوری میں اپنی آخری سانس لی تب اُن کی عمر 118 سال تھی اور ان کا نام دنیا کی معمر ترین انسان کے طور پر ریکارڈ میں درج تھا۔
فرانسیسی راہبہ لوسیل ’سسٹر آندرے‘ کے نام سے مشہور تھیں۔ انھوں نے دونوں عالمی جنگیں دیکھی تھیں۔ وہ چاند پر انسان کے پہلی مرتبہ قدم رکھنے کی گواہ تھیں اور انھوں نے ڈیجیٹل دور بھی دیکھا۔
ان کی کہانی اس حقیقت کی روشنی میں منفرد نظر آتی ہے کہ وہ اسی دنیا کا حصہ تھیں جہاں انسانوں کی اوسط عمر 73.4 سال ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی زندگی لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ اس صدی کے وسط تک (یعنی 2050 تک) انسانوں کی اوسط عمر 77 سال تک ہو سکتی ہے۔
لوگوں کی متوقع عمر بڑھ رہی ہے جبکہ دوسری جانب شرح پیدائش کم ہو رہی ہے۔ ایسے میںدنیا میں بوڑھے لوگوں کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔
دنیا میں اب پانچ سال سے کم عمر کے جتنے بچے ہیں اس سے کہیں زیادہ آبادی 65 سال یا اس سےزیادہ عمر کے لوگوں کی ہے۔ تاہم دنیا کے تمام ممالک میں صورتحال ایک جیسی نہیں ہے۔
جہاں موناکو میں انسانوں کی اوسط عمر 87 سال ہے، وہیں افریقہ کے ایک غریب ملک جمہوریہ چاڈ میں اوسط عمر صرف 53 سال ہے۔
موناکو کے بعد چین کے زیر انتظام ہانگ کانگ کا نمبر آتا ہے۔ مکاؤ تیسرے نمبر پر ہے اور جاپان چوتھے نمبر پر ہے۔ عالمی طاقتوں میں جاپان میں انسانوں کی اوسط عمر سب سے زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کی ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس رپورٹ کے مطابق زیادہ اوسط عمر سے متعلق فہرست میں لکٹنسٹائن، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور، اٹلی، جنوبی کوریا اور سپین جیسے ممالک شامل ہیں۔
وبائی امراض اور عالمی جنگ کو ایک چھوڑیں تو پوری دنیا میں دو سو سال سے زائد عرصے سے انسانوں کی اوسط عمر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ویکسین، اینٹی بائیوٹکس اور بہتر ادویات کی ترقی کے ساتھ، بہتر صفائی، خوراک اور بہتر میعارِِ زندگیکی وجہ سے اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔
درست فیصلے، بہتر نتائج Getty Images پوری دنیا میں دو سو سال سے زائد عرصے سے انسانوں کی اوسط عمر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
عمر بڑھنے میں جینیاتی وجہ سب سے اہم ہوتی ہے لیکن اس میں دیگر چیزیں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کی پیدائش جہاں ہوئی ہے وہاں کے حالاتِ زندگی کیا تھے اور اس نے بطور انسان اپنی زندگی میں کس قسم کے فیصلے کیے؟
لمبی عمر صرف صحت کے بہتر نظام اور اچھی خوراک سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے لیے وہ فیصلے بھی اہم ہیں، جنہیں ماہرین ’سمارٹ فیصلے‘ کہتے ہیں، جیسے کہ متوازن خوراک، نیند پوری کرنا، تناؤ کو کنٹرول کرنے اور ورزش سے متعلق فیصلے۔
وہ ممالک جو لمبی اوسط عمر کے لحاظ سے سرِفہرست ہیں، ان میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے زیادہ آمدنی۔ ان میں ایک اور چیز مشترک ہے، وہ ہے ان ممالک میں آبادی کا حجم۔
اقوام متحدہ کے آبادی کے تخمینے کے شعبے کے سربراہ پیٹرک گیرلینڈ کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں موناکو اور لکٹنسٹائن جیسے بہت چھوٹے ممالک ہیں۔ ان کی آبادی میں دیگر ممالک کی طرح تنوع نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں ’یہ ممالک بظاہر منفرد نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں دیکھیں تو ان کی آبادی مختلف سی ہے۔ دوسرے ممالک میں جس طرح مختلف قسم کی آبادی کا مکسچر دیکھا جاتا ہے، ویسا یہاں نہیں ہے۔‘
Getty Imagesموناکو میں اوسط عمر 87 سال ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پیٹرک کہتے ہیں کہ ’یہاں ان کا معیار زندگی بلند ہے۔ صحت کی سہولیات اور تعلیم کی سہولیات اچھی ہیں لیکن یہاں کوئی بے ترتیبی نہیں ہے۔‘
مختلف ممالک کے درمیان بلکہ کچھ معاملات میں ایک ہی ملک میں بڑا فرق دیکھا جا سکتا خاص طور پر جہاں زیادہ عدم مساوات ہے، وہاں مختلف سماجی گروہوں کی اوسط عمر میں فرق بڑھ جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’یورپ کے کئی ممالک میں اسّی سال سے زیادہ عمر کے بہت سے لوگ ہیں۔ وہاں اوسط عمر زیادہ ہے۔‘
بڑھاپے کے لیے نعمت ’بلیو زون‘
اٹلی کا ساردینیا علاقہ سب سے پہلا بلیو زون تھا۔ بلیو زون آبادی کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ یہاں ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ جیتے ہیں۔
چند دہائیاں قبل،آبادیاتی ماہر مائیکل پلن اور جرنلسٹ جانی پیس ایک مشن پر نکلے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دنیا کے معمر ترین لوگ کہاں رہتے ہیں اور نقشے پر انھوں نے گول نشان بنائے۔
انھوں نے پایا کہ نقشے پر نیلے رنگ سے نشان زد ایک علاقہ بارباجا ہے۔ یہ اطالوی جزیرے سارڈینیا پر واقع ہے۔ انھوں نے اسے ’بلیو زون‘ کا نام دیا۔ اس وقت سے، یہ نام ان جگہوں سے منسلک ہے جہاں لوگ بہتر معیار زندگی کے ساتھ طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں۔
Getty Imagesاٹلی کے ساردینیہ علاقے میں سب سے پہلا بلیو زون تھا
اس تحقیق کی بنیاد پر، صحافی ڈین بوٹنر نے ماہرین کی ایک ٹیم تیار کی تاکہ دوسری جگہوں پر ایسی ہی کمیونٹیز کی تحقیقات کی جا سکے۔
انھوں نے پایا کہ ساردینیا کے علاوہ چار اور بلیو زونز ہیں۔ یہ جاپان کا جزیرہ اوکیناوا، کوسٹا ریکا میں نکویا، یونان میں ایکاریا کا جزیرہ اور کیلیفورنیا میں لوما لنڈا ایڈونٹسٹ کمیونٹی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لمبی عمر کے لیے جینیاتی عوامل ایک نعمت ہیں۔
لیکن دیگر مختلف شعبوں کے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کے گروپوں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ بلیو زون کو متاثر کرنے والے دیگر عوامل کیا ہیں۔ اس کی معلومات کے لیے دنیا کے مختلف حصوں کا دورہ کیا۔
کچھ سال بعد یعنی 2008 میں، بیوٹنر نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا ’دی بلیو زونز: لیسن فار لیونگ لانگر فارم دی پیپلز ہو ہیو لیڈ لانگیسٹ‘یعنی ان لوگوں سے سبق جو طویل عرصے زندہ رہے۔ اس کے بعد سے انہوں نے خود کو اس خیال کو آگے بڑھانے کے کام میں وقف کر دیا۔ تاہم ہر کوئی ان کی باتوں سے متفق نہیں تھا۔ لوگوں نے دلیل دی کہ ان کے بہت سے بیانات طویل مدتی سائنسی مطالعہ کے بجائے مشاہدے پر مبنی تھے۔
Getty Imagesجنوبی جاپان میں لوگ 90 سال کی عمر تک متحرک رہتے ہیںبلیو زون میں ’ایک جیسا‘ کیا ہے؟
بٹنر اور ان کی ٹیم نے کمیونٹیز کے اپنے مطالعے میں کچھ یکسانیت پائی۔ ان کی بنیاد پر انھوں نے بتایا کہ ان برادریوں کے لوگوں کی زندگی باقی دنیا کے مقابلے طویل اور بہتر کیوں ہے۔ ان میں سے کچھ چیزیں یہ تھیں۔
ان کی زندگی کا کوئی ایک مقصد تھا۔ یعنی جس وجہ سے وہ ہر صبح اٹھتے ہیںوہ خاندانی رشتہ مضبوط رکھتے ہیںوہ تناؤ کو کم کرنے کے لیے معمول کی زندگی سے ہٹ کر کچھ کرتے ہیںوہ دوسری سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں جو سماجی عادات کا حصہ بن چکی ہیں۔ مثال کے طور پر لوما لنڈا عبادت کرتے ہیں اوکیناوا میں خواتین کے لیے چائے کی پارٹی کا انعقاد کیا جاتا ہےوہ کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھاتے بلکہ بیٹ کی بھوک کا 80 فیصد کھاتے ہیںوہ متوازن خوراک لیتے ہیں۔ اس میں سبزیاں اور پھل وافر مقدار میں پائے جاتے ہیںوہ محدود مقدار میں شراب پیتے ہیںوہ ہر روز ٹہلنے جیسی جسمانی ورزش کرتے ہیںان میں برادری کا شدید جذبہ ہے۔ وہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور اچھی عادات کو فروغ دیتے ہیںوہ ایسے گروہ کا حصہ ہیں جہاں عقیدے یا مذہب کو فروغ دیا جاتا ہےان کے علاوہ دوستانہ ماحول، اچھی طبیعت، صحت بخش خوراک تک رسائی اور بڑے شہری مراکز سے دوری بھی ان کے طرز زندگی کا حصہ تھے
حالانکہبلیو زون کا حصہ بننے کے لیے آپ کو وہاں پیدا ہونا اور اس کمیونٹی کا ایک فعال رکن ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ طریقے ان تمام لوگوں کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں جو لمبی اور بہتر زندگی چاہتے ہیں۔
Getty Imagesدنیا کے بلیو زون والے علاقوں میں لوگ بہتر صحت کے ساتھ لمبی عمر پاتے ہیںاکیلے نہ رہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی حالت اور کروموسوم میں پائی جانے والی خوبیوں کے علاوہ کچھ اور چیزیں بھی ہیں، جن پر کم توجہ دی گئی ہے۔ یہ چیزیں زندگی کا مقصد اور دوسرے لوگوں سے رابطہ ہے۔
یہ چیزیں بظاہر آسان لگتی ہیں لیکن جو لوگ طویل عرصے تک اچھے معیار کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آن ایجنگ کے سائنٹیفک ڈائریکٹر لیگی فیروچی کا کہنا ہے کہ صحت مند بزرگ جسمانی طور پر متحرک رہتے ہیں۔ کچھ وقت گھر سے باہر گزارتے ہیں اور ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مضبوط تعلقات ہوتے ہیں۔
ماہرین اس بات پر منقسم ہیں کہ جینز اور طرز زندگی کا انسان کی لمبی عمر پر کتنا اثر ہوتا ہے۔
کچھ محققین کی رائے ہے کہ کروموزوم کا کردار 25 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ جو عوامل اہم ہیں وہ یہ ہیں کہ انسان کہاں رہتا ہے، کیا کھاتا ہے، کتنی ورزش کرتا ہے اور دوستوں اور گھر والوں سے متعلق اس کا سپورٹ سسٹم کیسا ہے۔
طویل اور صحت مند زندگی میں جینیاتی عوامل کے کردار کے بارے میں بحث سائنسی برادری میں جاری ہے۔