Getty Imagesشیواجی نے مراٹھا سلطنت کی بنیاد ڈالی
ایک ایسا شخص جو نا صرف ایک سلطنت کا مقابلہ کر رہا ہو بلکہ اس پر بھاری بھی پڑ رہا ہو اور سلطنت بھی ایسی جو اپنے وقت کی دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین سلطنت ہو۔
شیواجی راجے بھوسلے نے مغل سلطنت کے چھٹے شہنشاہ اورنگزیب کے خلاف اس وقت ایک بھرپور مہم چلائی جب وہ اپنی طاقت کے عروج پر تھے۔
شیواجی نے دراصل ایک ایسی تحریک کو ہوا دی جس نے مغل سلطنت کے زوال اور تباہی کے بیج بوئے۔ اس دوران شیواجی نے اپنی آزاد ریاست بنائی۔
شیواجی 1630 میں پیدا ہوئے تو ہندوستان کے مغربی حصے میں تین اسلامی سلطنتیں تھیں۔ احمد نگر کی نظام شاہی، بیجاپور کی عادل شاہی اور گولکنڈہ کی قطب شاہی۔
یہ تینوں آپس میں لڑتے تھے اور شمال سے مغل ان سلاطین پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ سلطنت میں شامل ہو جائیں تاکہ جنوبی ہند پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔
BBCمشکل مہمات
اپنی نوعمری میں، شیواجی نے بیجاپور کے چار پہاڑی قلعوں پر قبضہ کر کے بغاوت کا آغاز کیا۔ اس وقت اورنگزیب اپنی شہرت کے عروج پر تھے۔
اس وقت کے ایک مشہور مورخ رابرٹ اورمن نے لکھا کہ اورنگزیب نے عوامی طور پر شیواجی کو ’پہاڑی چوہا‘ بھی کہا، لیکن ان کو کچلنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت بھی استعمال کرنے پر مجبور ہوئے۔
ویبھو پورندرے شیواجی کی سوانح عمری ’شیواجی انڈیاز گریٹ واریئر کنگ‘ میں لکھتے ہیں کہ فوجی رہنما کے طور پر شیواجی کی سب سے بڑی خوبی ان کی جرات مندانہ اور تقریباً ناممکن حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت تھی، ساتھ ہی ضرورت پڑنے پر پیچھے ہٹنے کی حکمت عملی بھی ان کا خاصہ تھی۔
شیواجی کے حریفوں کو جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ ان کے ساتھیوں اور پیروکاروں کی ان کے ساتھ وفاداری تھی۔
ان کے قریبی ساتھی باجی پربھو دیش پانڈے نے 1660 میں صرف 300 سپاہیوں کے ساتھ بیجاپور کے ایک بڑے حملے کا سامنا کیا تاکہ شیواجی وہاں سے محفوظ مقام پر پہنچ سکیں۔ باجی پربھو کو اس لڑائی میں اپنی جان گنوانی پڑی اور وہ مراٹھا تاریخ میں ایک لیجنڈ بن گئے۔
شیواجی اور افضل خان کی ملاقات
شیواجی کی فوج میں دس ہزار گھڑ سوار تھے۔ شیواجی کی بیجاپور دربار کے عظیم جرنیل افضل خان سے بہت سی تلخ یادیں وابستہ تھیں۔
وہ 1648 میں ان کے والد کو زنجیروں میں جکڑ کر بیجاپور لے گئے تھے۔
جادوناتھ سرکار اپنی کتاب ’شیواجی اینڈ ہز ٹائمز‘ میں لکھتے ہیں کہ افضل خان نے بیجاپور کے دربار میں فخریہ کہا تھا کہ ’شیواجی کون ہے؟ میں اسے یہاں زنجیروں میں جکڑ کر لاؤں گا اور اس کے لیے مجھے اپنے گھوڑے سے نیچے نہیں اترنا پڑے گا۔‘
دونوں کے درمیان بہت سے پیغامات کا تبادلہ ہوا اور یہ طے پایا کہ دونوں کی ملاقات 10 نومبر 1659 کو ہو گی۔ افضل خان اپنے دو تین سپاہیوں کے ساتھ پالکی میں آئے گا اور اسے ہتھیار لانے کی اجازت ہوگی۔ شیواجی کو بھی اتنی ہی تعداد میں فوجی اپنے ساتھ لانے کی اجازت تھی۔
ملاقات سے چند دن پہلے شیواجی نے اپنے سپاہیوں کو خاموشی سے جلسہ گاہ کے قریب جنگلوں میں داخل ہونے اور چوکنا رہنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیے
یوگی آدتیہ ناتھ: آگرہ سے شیوا جی اور مغلوں کا رشتہ کیا تھا؟
انڈین ریاست میں مغل تاریخ خارج
انڈیا میں لاؤڈ سپیکر پر اذان کا تنازع: ’اذان بمقابلہ ہنومان چالیسا‘
شیواجی نے کہا کہ اگر افضل خان کے ساتھ بات چیت ناکام ہوئی تو وہ بگل بجانے کا حکم دیں گے اور یہ اشارہ ہو گا کہ وہ افضل خان کے سپاہیوں پر حملہ کریں۔
پرمانند اپنی کتاب ’شیو برات‘ میں لکھتے ہیں کہ اس دن شیواجی نے سفید چوغہ پہنا ہوا تھا۔ ان کے تاج کے نیچے لوہے کی ٹوپی تھی اور ان کے پاس ایک تیز خنجرتھا جو دائیں آستین میں چھپایا ہوا تھا۔
جب افضل خان ملاقات کے لیے گیا تو اس کے ساتھ ایک ہزار سپاہی چل رہے تھے۔ لیکن شیواجی کا قاصد ان کے پاس گیا اور کہا کہ اگر شیواجی نے اتنے سارے سپاہیوں کو دیکھا تو وہ واپس قلعہ میں چلا جائے گا اور وہ دونوں مل نہیں سکیں گے۔
افضل خان نے اپنے سپاہیوں کو وہیں رہنے کا حکم دیا اور اپنے ساتھ دس مسلح سپاہیوں کے ساتھ شیواجی سے ملنے کے لیے آگے بڑھا۔
Getty Imagesافضل خان کا قتل
اس ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے جدوناتھ سرکار لکھتے ہیں: ’افضل خان نے شیواجی کو دیکھ کر انھیں گلے لگانے کے لیے اپنے بازو آگے بڑھائے تو شیواجی اچانک پریشان ہو گئے کیونکہ افضل خان نے اچانک ان کی گردن کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔‘
’شیواجی نے بہت تیزی سے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے افضل خان کو کمر سے پکڑ کر حملہ کیا۔ افضل خان چیخا کہ اسے فوراً مار ڈالو۔‘
’اگلے ہی لمحے افضل کے ساتھ آنے والے دو سپاہیوں میں سے ایک نے شیواجی پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے ساتھی کے ہاتھوں مارا گیا۔‘
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شیواجی نے اپنی تلوار سے افضل خان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن کچھ اور کہتے ہیں کہ زخمی افضل کے محافظوں نے اسے پالکی پر بٹھایا لیکن شیواجی کے سپاہیوں نے اس کا پیچھا کیا اور پہلے پالکی لے جانے والوں اور پھر اس میں سوار افضل خان کو قتل کر دیا گیا۔
’افضل کے ساتھ آنے والے سپاہی اس سارے واقعے سے حیران رہ گئے۔ افضل کا بھتیجا رحیم خان بھی اس حملے میں مارا گیا تھا۔ پھر شیواجی کے ساتھیوں نے بگل بجایا اور شیواجی کے جنگلوں میں چھپے ہوئے سپاہی باہر نکل آئے۔‘
عادل شاہی سپاہیوں نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن وہ چاروں طرف سے گھرے ہوئے تھے۔ اس حملے میں کل 3000 فوجی مارے گئے۔
Getty Imagesشائستہ خان کی خواب گاہ پر حملہ
شیواجی نے پہلی بار 1657 میں اورنگزیب کی براہ راست مخالفت کی جب وہ شاہ جہاں کی جنوبی مہم کی قیادت کر رہے تھے۔
پھر اورنگزیب اپنی جنوبی مہم کو درمیان میں چھوڑ کر وسطی ہندوستان چلے گئے لیکن شیواجی بڑی مغل فوج کے مقابلے میں گوریلا لڑائی میں زیادہ ماہر تھے۔
اپریل 1663 میں وہ رات کے وقت پونے میں اورنگزیب کے ماموں شائستہ خان کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کی کئی بیویوں اور بیٹوں کو قتل کر دیا۔
شائستہ خان کو اورنگزیب نے جنوب میں اپنا وائسرائے مقرر کیا تھا اور وہ پونے کے لال محل میں مقیم تھے جہاں شیواجی نے اپنا بچپن گزارا۔
کرشنا جی اننت سبھاسد شیواجی کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’رمضان کا چھٹا دن تھا۔ شائستہ خان کے باورچی افطار کر کے سو گئے تھے۔ کچھ باورچی سحری کی تیاری میں جاگ رہے تھے جب شیواجی شائستہ خان کے پاس پہنچے
’سونے کے کمرے میں موجود خواتین نے خطرے کی گھنٹی بجائی لیکن اس سے پہلے کہ شائستہ خان کا ہاتھ اپنے ہتھیار کی طرف جاتا، شیواجی نے اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے ان کا ایک انگوٹھا کاٹ دیا۔‘
شائستہ خان کا تبادلہ
جادوناتھ سرکار لکھتے ہیں، ’اندھیرے میں دو مرہٹہ سپاہی پانی کے ٹینک سے ٹکرا گئے اور اسی افراتفری میں شائستہ خان وہاں سے نکل گئے۔‘
’شیواجی بھی فوراً وہاں سے چلے گئے اس سے پہلے کہ شائستہ خان کے سپاہی سمجھ پاتے کہ معاملہ کیا ہے۔‘
اس پوری مہم میں صرف چھ مراٹھا سپاہی مارے گئے جبکہ 40 سپاہی زخمی ہوئے۔
اس واقعہ کے بعد شیواجی کی شہرت پورے علاقے میں پھیل گئی۔
جب اورنگزیب کو اس کی خبر ملی تو انھوں نے شائستہ خان کی غفلت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ وہ شائستہ خان سے اتنا ناراض ہوئے کہ ان کو بنگال منتقل کر دیا۔
آگرہ میں اورنگزیب کی قید سے فرار
جئے سنگھ کے بار بار کہنے پر، شیواجی اورنگزیب سے ملنے آگرہ جانے پر راضی ہو گئے۔ اورنگزیب کے دربار میں شیواجی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔
جب شیواجی نے اس کے خلاف شور مچایا اور احتجاج کیا تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن، کچھ دنوں کے بعد، شیواجی اپنے بیٹے کے ساتھ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
آڈری ٹرشکے اورنگزیب کی سوانح عمری ’اورنگزیب دی مین اینڈ دی متھ‘ میں لکھتی ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ شیواجی ان سپاہیوں کو رشوت دے کر بھاگ گئے ہوں جو ان کی حفاظت پر مامور تھے۔ لیکن بعض مورخین کا خیال ہے کہ وہ ایک راہب کا بھیس بدل کر پیدل اپنی سلطنت پہنچ گئے۔
Getty Imagesشیواجی جن کی ریاست سب کے لیے تھی
شیواجی کا ایک بڑا کارنامہ اپنا بحری بیڑا بنانا تھا۔ وہ اپنے ہم عصروں میں واحد بادشاہ تھے جنھوں نے بحری قوت کی اہمیت کو تسلیم کیا۔
تمام غیر ملکی سمندری طاقتیں پرتگالی، ڈچ، برطانوی اور فرانسیسی اپنے سمندری علم کو بانٹنا نہیں چاہتی تھیں لیکن اس کے باوجود شیواجی اپنی بحریہ قائم کرنے میں کامیاب رہے جو اس وقت کے لیے ایک بڑی بات تھی۔
شیواجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ عام کسانوں کی زمینوں سے ان کو معاوضہ دیے بغیر کچھ نہ لیا جائے۔
ویبھو پورندرے لکھتے ہیں: ’شیواجی نے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ کھیتوں میں گھاس کے ایک دانے کو بھی ہاتھ نہ لگائیں اور اناج کا ایک دانہ بھی زبردستی نہ اٹھائیں۔‘
ان کی ہندو ریاست ہندو اور غیر ہندو دونوں کے لیے تھی۔
ویبھو پورندرے لکھتے ہیں: ’ان کی سوچ جامع تھی۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو یکساں سمجھتے تھے اور وہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کو غیر اخلاقی اور ناقابل قبول سمجھتے تھے۔ ان کی فوج میں مرہٹوں اور دیگر ہندوؤں کی طرح مسلمان بھی شامل تھے۔ ان کی بحریہ کے دو اعلیٰ افسران مسلمان تھے۔‘
ان کا ایک اور اعلیٰ فوجی افسر نور بیگ تھا جو مسلمان تھا۔
سریندر ناتھ سین نے اپنی کتاب ’دی ایڈمنسٹریٹو سسٹم آف مراٹھاز‘ میں لکھا ہے کہ ’شیواجی نے اپنے مشیروں کی مخالفت کے باوجود 700 پٹھانوں کو اپنی فوج میں شامل کیا۔ ان کے صرف ایک اتحادی نے ان کے فیصلے کی حمایت کی۔‘
مغل مورخ خفی خان، جو شیواجی کے ایک تلخ ناقد تھے، انھوں نے بھی تحریری طور پر اعتراف کیا کہ شیواجی نے اپنے سپاہیوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ قرآن کا احترام کریں۔
Getty Imagesخواتین کا احترام
سیتو مادھو راؤ پگاڑی اپنی کتاب ’چھترپتی شیواجی‘ میں لکھتے ہیں کہ اپنی حکمرانی کی ہندو فطرت کے باوجود شیواجی نے ہمیشہ مذہبی رواداری کی پالیسی پر عمل کیا۔
شیواجی کے بارے میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک بار ان کے ایک کمانڈر نے ملا احمد کی پرکشش بہو کو پکڑ کر شیواجی کے پاس پونے بھیج دیا تھا۔
جادوناتھ سرکار لکھتے ہیں کہ شیواجی نے نہ صرف اس عورت سے معافی مانگی بلکہ اسے واپس اپنے گھر بھی بھیج دیا۔ چلتے چلتے شیواجی نے اس عورت سے کہا، ’کاش میری ماں آپ جیسی خوبصورت ہوتی، تو میں بھی آپ کی طرح پرکشش نظر آتا۔‘
خود شیواجی کی قیادت میں ایک اور جنگ میں، بیجاپور کے قلعہ کا سردار کیشری سنگھ مارا گیا۔
جب شیواجی قلعے کے اندر پہنچے تو انھوں نے کیشری سنگھ کی بوڑھی ماں اور اس کے دو بچوں کو خوف سے کانپتے دیکھا۔
شیواجی نے ان کو سپاہیوں کی نگرانی میں ایک پالکی میں اپنے شہر دیول گاؤں کی طرف روانہ کیا۔
اورنگزیب کو مجبوراً جنوب میں قیام کرنا پڑا
اورنگزیب نے شیواجی کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہوں گے، لیکن شائستہ خان کے واقعے کے بعد، اورنگزیب نے مان لیا کہ حالات اتنے سنگین ہو چکے تھے کہ ان کو خود جنوب کی طرف جانا پڑے گا۔
آگرہ سے شیواجی کے فرار، سورت پر حملے اور 23 قلعوں پر دوبارہ قبضے کے بعد، اورنگزیب کے پاس جنوب کی طرف مارچ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
1674 میں شیواجی نے خود کو ایک آزاد ریاست کا بادشاہ قرار دیا۔
شیواجی کا انتقال محض 50 سال کی عمر میں ہوا، لیکن اس سے پہلے انھوں نے اورنگزیب کو جنوب میں اپنے کم ہوتے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کے لیے مارچ کرنے پر مجبور کیا۔
اورنگزیب 25 سال تک شمال میں اپنی راجدھانی آگرے واپس نہ لوٹ سکے۔