اڈانی گروپ سے بجلی خریدنا بنگلہ دیش کے لیے پھندا بن سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Feb 19, 2023

Getty Imagesانڈیا میں اڈانی پاور کا پاور پلانٹ

بنگلہ دیش الیکٹریسٹی ڈویلپمنٹ بورڈ نے حکومتِ بنگلہ دیش کو ایک خط لکھا ہے کہ وہ اڈانی گروپ سے بجلی خریدنے کے زیر بحث معاہدے پر دوبارہ غور کرے۔

بنگلہ دیش کے بجلی کے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل محمد حسین نے بتایا کہ اڈانی گروپ کا ایک وفد اس معاملے پر بات چیت کے لیے اس ماہ کے آخر تک بنگلہ دیش کا دورہ کرے گا۔

محمد حسین کا کہنا ہے کہ ’اس وقت آمنے سامنے مذاکرات ہوں گے۔۔۔ میرے خیال میں یہ ایک دوسرے سے بات چیت کا بہترین آپشن ہوگا۔‘

اس دوران ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ انڈیا کے خارجہ سکریٹری ونے موہن کواترا کے دورہِ بنگلہ دیش کے دوران اڈانی گروپ کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدے پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

لیکن امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں سات فروری کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اڈانی پاور نے انڈین ریگولیٹری ایجنسی کو بھیجے گئے خط میں بتایا ہے کہ بنگلہ دیش سے بجلی کی خریداری کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ یہ خبر اڈانی کے ترجمان کے حوالے سے شائع ہوئی ہے۔

اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ اگر اس معاملے پر کوئی بات چیت نہیں ہوتی تو کیا اڈانی گروپ سے بجلی خریدنا بنگلہ دیش کے لیے پھندا بن جائے گا؟

کوئلے کی قیمت میں اضافے کا مسئلہ

اس حوالے سے توانائی کے ماہر بدرالاسلام کا کہنا ہے کہ ’اڈانی گروپ سے بجلی خریدنے کی قیمت بہت زیادہ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اڈانی گروپ نے کوئلے کی قیمت 400 ڈالر فی ٹن مقرر کی ہے۔ جبکہ یہ قیمت تقریباً 250 ڈالر ہے۔‘

ان کی رائے میں ایندھن کی یہ قیمت مقرر کرنے کی صورت میں بجلی کی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی جو بنگلہ دیش کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ بنگلہ دیش کو مستقبل میں بجلی کی خوردہ قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بنگلہ دیش کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا اگر وہ موجودہ معاہدے کی شرائط کو قبول کرتا ہے۔‘

توانائی کے ماہر ایم تمیم کہتے ہیں، ’اڈانی گروپ سے خریدی جانے والی بجلی بنگلہ دیش کی مقامی مارکیٹ کے مقابلے میں ایک یا ڈیڑھ روپے فی یونٹ مہنگی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ 13 یا 14 روپے کا فی یونٹ 22 روپے میں خریدے گا تو یہ بہت نقصان دہ ہو گا۔‘

Getty Imagesایندھن کی فراہمی سے فائدہ ہو گا

توانائی کے ماہر اور بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ اڈانی گروپ کے ساتھ بجلی کی خریداری کا معاہدہ ایک طرح سے اچھا ہے۔

ان کی رائے میں، بجلی گھر بنانے میں کامیاب ہونے کے باوجود بنگلہ دیش ایندھن کی فراہمی میں ناکام رہا ہے۔ یہ چیز خاص طور پر کورونا وبا اور روس یوکرین جنگ کے دوران دیکھی گئی ہے۔ اس نقطہ نظر سے، اڈانی گروپ کے معاہدے کے تحت، پاور سٹیشنز کی تعمیر کے ساتھ، وہاں ایندھن بھی فراہم کیا جائے گا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب معاہدہ ہوا تو حالات ایسے نہیں تھے جو اب ہیں۔ خاص طور پر بین الاقوامی منڈی میں ایندھن کی قیمت آسمان کو نہیں چھو رہی تھی۔ اس لیے کوئی ایسا منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا کہ کسی خاص صورت حال میں ایندھن کی قیمت کیا ہو گی۔

گوڈا پاور سٹیشن کے معاہدے کے مطابق بنگلہ دیش کو ایندھن کی قیمت مروجہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ادا کرنا ہوگی۔ روس یوکرین جنگ کے بعد کوئلے کی قیمت میں کم از کم تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

محمد حسین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر اگر معاہدے کی شرائط پر نظر ثانی نہ کی گئی اور اسے بنگلہ دیش پر مسلط کیا گیا تو ملک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔

موجودہ حالات میں مشکلاتGetty Images

ایندھن کی قیمت کا تعین عام طور پر نیو کیسل انڈیکس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ توانائی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عام حالات میں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

لیکن موجودہ حالات میں، چونکہ اس انڈیکس سے کسی ایندھن کی قیمت کو سمجھنا مشکل ہے، اس لیے یہ بنگلہ دیش کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گوڈا پاور سٹیشن میں استعمال ہونے والا کوئلہ اڈانی کے پرائیویٹ جہاز کے ذریعے آئے گا۔ کوئلہ اس بندرگاہ پر اترے گا جہاں اڈانی گروپ کی ملکیت ہے اور اسے اڈانی کی تعمیر کردہ ریلوے لائن کے ذریعے منتقل کیا جائے گا۔

اس کے ساتھ اس مرکز میں بجلی کی ترسیل بھی اڈانی کی بنائی گئی ہائی وولٹیج لائن کے ذریعے کی جائے گی۔ معاہدے کے مطابق بنگلہ دیش کو شپنگ اور ٹرانسمیشن کے تمام اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔

بنگلہ دیش اس بجلی کو ملک میں بجلی کی تھوک قیمت سے پانچ گنا زیادہ ادا کر کے خریدے گا۔

یہاں تک کہ اگر کوئلے کی قیمت پہلے کی سطح پر واپس آجاتی ہے، اڈانی کی فی کلو واٹ بجلی مقامی مارکیٹ سے 33 فیصد زیادہ ہوگی۔ اڈانی کی بجلی کپتائی سولر فارم سے پانچ گنا مہنگی ہوگی۔

ڈاکٹر اعجاز حسین کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حالات میں اگر اڈانی گروپ بنگلہ دیش پر یہ قیمت عائد کرتا ہے تو بنگلہ دیش کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ وہ بجلی خریدنے کے بجائے ایندھن کی قیمت کم ہونے کا انتظار کرے۔‘

لیکن اس دوران بنگلہ دیش کو صلاحیت چارج ادا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایک اور آپشن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بنگلہ دیش اڈانی گروپ کے پاور جنریشن سینٹر کو ایندھن کی فراہمی کی ذمہ داری لے۔

حسین کہتے ہیں، ’اگر یہ دباؤ بڑھا تو اڈانی گروپ معاہدے کی شرائط پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔‘

ان کی رائے میں یہ معاہدہ بنگلہ دیش کے لیے بہتر ہو گا اگر شرائط پر دوبارہ غور کیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر معاہدے میں یہ شق موجود ہے کہ کسی غیر معمولی صورتحال کی صورت میں معاہدے کی شرائط پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس معاہدے پر بھی نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔

Getty Imagesگوڈا پاور سٹیشن سے بنگلہ دیش کو بجلی بھیجنے کے لیے ایک علیحدہ ٹرانسمیشن لائن بچھائی جا رہی ہےبنگلہ دیش کا اعتراض

سنہ 2017میں بنگلہ دیش الیکٹریسٹی ڈویلپمنٹ بورڈ (PDB) کے اڈانی پاور کے ساتھ کیے گئے 25 سالہ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ایندھن کی درآمد اور نقل و حمل کے اخراجات خریدار ملک (بنگلہ دیش) برداشت کرے گا۔ یہ قیمت اس وقت کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق طے کی جائے گی۔

بورڈ کی طرف سے اڈانی پاور کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ گروپ نے کوئلے کی قیمت 400 امریکی ڈالر فی ٹن مقرر کی ہے۔

یہ بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں کوئلے کی قیمت فی ٹن 250 امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس وجہ سے کوئلے کی قیمت پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش الیکٹریسٹی ڈیولپمنٹ بورڈ نے اکتوبر 2022 میں اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ اڈانی پاور پلانٹ کی صلاحیت چارج بنگلہ دیش کے دیگر پاور اسٹیشنوں کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ ہے۔

اس میں کہا گیا کہ کوئلے کی جو قیمت طے کی گئی ہے وہ ملک کے پائرہ پاور سٹیشن سے تقریباً 45 فیصد زیادہ ہے۔ اس لیے اڈانی گروپ سے بجلی خریدنے کی صورت میں اس کی قیمت انڈیا سے درآمد کی جانے والی بجلی سے تین گنا زیادہ ہوگی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ انڈیا سے بجلی کی درآمد پر تقریباً سات روپے فی یونٹ لاگت آتی ہے اور اڈانی گروپ سے خریدنے کی صورت میں اس کی قیمت تقریباً اٹھارہ روپے فی یونٹ ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اڈانی کی بجلی کے لیے تقریباً چار ہزار کروڑ روپے ہر سال کیپیسٹی چارج کے طور پر ادا کرنے ہوں گے۔

معاہدے کے مطابق گوڈا میں واقع اڈانی گروپ کے پاور جنریشن سینٹر سے بنگلہ دیش کو تقریباً 1500 میگاواٹ بجلی فراہم کی جانی ہے۔ یہ سپلائی گذشتہ سال 16 دسمبر سے شروع ہونا تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

پاور سیل کے ڈائریکٹر جنرل محمد حسین کہتے ہیں،’اگلے ماہ کے آخر تک بجلی کا پہلا یونٹ ملنے کی بات ہے۔ اس کے لیے ضروری انفراسٹرکچر یہاں موجود ہے۔ اس میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔‘

لیکن اس سے پہلے یہ ڈیڈ لائن پہلے مارچ کے پہلے ہفتے اور پھر مارچ کے وسط میں طے کی گئی تھی۔ پانچفروری کو ایندھن اور معدنی وسائل کے وزیر مملکت نصر الحامد نے کہا تھا کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں 750 میگاواٹ بجلی آنا شروع ہو جائے گی۔

لیکن اڈانی گروپ کی طرف سے بجلی سپلائی شروع کرنے کی ڈیڈ لائن کو کئی بار ٹالنے کی وجہ سے اب اس بیان پر بھی شکوک پیدا ہو گئے ہیں کہ مارچ کے آخر تک بجلی کی سپلائی شروع ہو سکے گی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More