چین کے مختلف ممالک سے ایک کے بعد ایک تنازعات سامنے آرہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ جاسوس غبارہ کیس کے بعد اب چین اور فلپائن کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ لیزر لائٹ ہے۔
فلپائن کا الزام ہے کہ بحیرہ جنوبی چین میں ایک متنازع جزیرے پر اس کے ری سپلائی مشن کو روکنے کے لیے چین نے اس کی کشتی پر ’فوجی گریڈ‘ لیزر کا استعمال کیا۔ اس لیزر کی چمک سے فلپائن کے کوسٹ گارڈز کی کشتی پر سوار عملے کی آنکھیں چُندھیا گئیں، جس کے نتیجے میں انھیں پیچھے ہٹنا پڑا۔
یہ کشتی ایک خستہ حال جہاز سیرا میڈرے کی جانب بڑھ رہی تھی جسے منیلا برسوں سے ’سیکنڈ تھامس شول‘ پر دعوے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ متنازع چھوٹا جزیرہ ہے۔ سیکنڈ تھامس شول پر کئی ممالک دعویٰ کرتے ہیں لیکن فی الحال یہاں فلپائن کی فوج کا قبضہ ہے۔
ان کے مطابق یہ واقعہ چھ فروری کو اس وقت پیش آیا جب ایک کشتی سیرا میڈرے نامی جہاز کے لیے سامان لے جا رہی تھی۔
سیرا میڈرے کو بحیرۂ جنوبی چین میں فلپائنی بحری چوکی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاز پرسامان لے جانے والی ایک فلپائنی کشتی کو چینی کوسٹ گارڈ کی ایک کشتی نے روکا اور اس پر لیزر ڈیوائس کا استعمال کیا جس نے عملے کو عارضی طور پر اندھا کر دیا گیا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ چینی فریق نے کس قسم کا سامان استعمال کیا اور وہ کتنا طاقتور تھا لیکن لیزر ہتھیاروں سے بینائی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس پر اقوام متحدہ نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اس واقعے کی امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور جرمنی جیسے ممالک نے فوری طور پر مذمت کی تھی۔
اسی وقت، چین نے اپنی ’خودمختاری‘ کے تحفظ کے لیے لیزر کے استعمال کے حق کا دفاع کیا لیکن فلپائن کے عملے پر لیزر کے استعمال سے انکار کیا۔
چین کا کہنا ہے کہ اس نے ’ہینڈ ہیلڈ لیزر سپیڈ ڈیٹیکٹر اور ہینڈ ہیلڈ گرین لائٹ پوائنٹرز‘ استعمال کیے ہیں، جن میں سے کوئی بھی خطرناک نہیں ہے۔
چین اور فلپائن ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں لیکن اس واقعے کے پیچھے ایک وجہ ایک چٹان بھی ہے۔
BBCسیرا میڈرے کو دوسری جنگ عظیم میں ٹینک اتارنے کے لیے بنایا گیا تھا اور اسے ویتنام کی جنگ میں امریکی بحریہ نے استعمال کیا تھاچٹانوں کی جنگ
سنہ 2014میں، بی بی سی نے سیرا میڈرے کی تلاش میں بحیرہ جنوبی چین کا دورہ کیا۔ جب سورج کی روشنی وہاں پڑی تو ہمیں وہاں کچھ نظر نہ آیا۔
پھر وہ شخص جو ہمیں جہاز پر لے جا رہا تھا کہنے لگا، ’فکر نہ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ یہ اس چٹان پر ہے۔‘
اس نے شمال کی طرف اشارہ کیا اور صبح کی دھند میں ہلکے سرمئی رنگ کی ایک بڑی سی چیزنمودار ہوئی، جو ایک بڑی ڈوبی ہوئی چٹان پر تھی۔ یہ سیرا میڈرے کی تھی اور وہ چٹان پانی سے چند فٹ نیچے دکھائی دے رہی تھی۔
سیرا میڈرے جب نیا تھا تو اس وقت بھی کوئی عظیم الشان جہاز نہیں تھا۔ اسے دوسری جنگ عظیم میں ٹینک اتارنے کے لیے بنایا گیا تھا اور اسے ویتنام کی جنگ میں امریکی بحریہ نے استعمال کیا تھا۔
سنہ 1970 میں یہ جہاز ویتنام کی بحریہ کو دیا گیا اور 1975 میں سائگون کے زوال کے بعد یہ فلپائن آیا۔ 1999 میں یہ بوڑھا جہاز فلپائن کے ساحل سے 160 کلومیٹر دور پایا گیا تھا۔ جسےجان بوجھ کر اس چٹان پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
ماہی گیری کی چھوٹی کشتی جیسے ہی قریب آتی، جہاز کے پتلے میں بڑے بڑے سوراخ نظر آنے لگتے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ جہاز اگلے طوفان میں تباہ ہو جائے گا۔
سیرا میڈرے تقریباً 10 سال بعد بھی سٹیل سے زیادہ زنگ سے ڈھکا ہے۔ فلپائنی میرینز کا تھوڑا سا عملہ اب بھی غیر یقینی صورتحال میں جہاز پر موجود ہے۔
چینی کوسٹ گارڈ کی جانب سے فلپائن کے جہاز کو روکنے کی کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا سکتا ہے۔ چین کچھ بھی کہے، زنگ آلود سیرا میڈرے کے آس پاس کے پانیوں کا تعلق چین سے نہیں ہے۔
سنہ 2016میں ہیگ میں قائم عالمی ثالثی عدالت نے واضح فیصلہ دیا تھا کہ بحیرہ جنوبی چین کے ایک بڑے حصے پر چین کے دعوے کی بین الاقوامی قانون میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس حصے کو اکثر نو ڈیش لائن بھی کہا جاتا ہے۔
تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔
BBCبحیرہ چین میں چین نے مصنوعی جزیرے بنائے چین نے مصنوعی جزیرے بنائے
بحیرۂ جنوبی چین کے جزائر، چٹانوں اور پانیوں کے حوالے سے بہت سے دعوے اور جوابی دعوے کیے گئے ہیں۔
فلپائن، ویتنام، تائیوان اور ملائیشیا سبھی سمندر کے چھوٹے حصوں پر اپنے اپنے دعوے اور جوابی دعوے کرتے ہیں۔ زیادہ تر دعوؤں کی بین الاقوامی قانون سے بھی تائید نہیں ہوتی۔
جن چٹانوں پر سیرا میڈرے موجود ہے ان کو چینی زبان میں سیکنڈ تھامس شوال، یانگین شوال اور رن-ای چٹان کہتے ہیں۔
لیکن زیر آب چٹان کو زمین نہیں سمجھا جاتا اور چٹان کو کنٹرول کرنے سے کسی ملک کو کوئی نیا علاقائی پانی نہیں ملتا اور نہ ہی اس کے خصوصی اقتصادی زون کو وسعت ملتی ہے۔
بحیرہ جنوبی چین میں تقریباً کوئی حقیقی زمین نہیں ہے۔ سب سے زیادہ متنازع علاقہ سپریٹلی جزائر پر مٹھی بھر چھوٹے جزائر ہیں۔یہاں سب سے بڑے جزیرے کو تائیپنگ ڈاؤ کہا جاتا ہے۔ یہ صرف 1000 میٹر لمبا اور 400 میٹر چوڑا ہے۔ تاریخ میں اتفاق سے یہ تائیوان کے کنٹرول میں آ چکا تھا۔
دوسرا بڑا جزیرہ پاگاسا ہے۔ آپ آدھے گھنٹے میں اس کے گرد مکمل چکر لگا سکتے ہیں۔ پاگاسا کو 1971 میں فلپائن نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا جب وہاں تعینات تائیوان کے فوجی ایک طاقتور سمندر طوفان سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ویتنام کے پاس زمین کے کچھ اور ٹکڑے ہیں۔
لیکن 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں ثقافتی انقلاب کی وجہ سے ہونے والی اندرونی ہلچل کی وجہ سے، چین کو بحیرہ جنوبی چین کی طرف توجہ دینے میں بہت دیر ہو چکی تھی اور اس وقت تک وہاں کوئی حقیقی زمین باقی نہیں تھی۔ اس لیے چین نے اپنی زمین بنانے کا فیصلہ کیا۔
سنہ2014 میں، جب وہاں سے 40 کلومیٹر دور، زنگ آلود سیرا میڈرے پر مٹھی بھر فلپائنی میرینز تعینات تھے۔ چین نے دور دراز مسچیف چٹان پر اپنی زمین تیار کرنے کا منصوبہ شروع کیا تھا۔
چین نے مسچیفراک پر جو نئی زمین بنائی ہے وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلپائن سے 320 کلومیٹر دور ہے۔ یہ خصوصی اقتصادی زون کے تحت آتا ہے۔
فلپائن کی تشویش
اس نئے جزیرے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ چین سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
فوجی حکمت عملی کے ماہرین چین کے نئے جزائر کو ’زمین پر ایک حقیقت‘ سمجھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، وہ اسے صرف قانونی تنازع نہیں بلکہ ایک حقیقت سمجھتے ہیں۔ یعنی یہ مبہم باؤنڈری لائن کی طرح کوئی تنازع نہیں ہے بلکہ یہ جزیرے موجود ہیں اور انھہیں استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
فلپائن کا خوف یہ ہے کہ چین صرف مسچیف چٹان پر رکنے والا نہیں۔ اگلا ہدفلیاجن شوئیل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زنگ آلود سیرا میڈرے ایک علامتی اہمیت رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 30 سال کے وقفے کے بعد صدر فرڈینینڈ بونگ بونگ مارکوس جونیئر کی حکومت امریکی فوجیوں کے لیے فلپائن میں اپنے اڈوں پر واپسی کے دروازے کھول رہی ہے۔