BBCعائشہ کے سامنے ان کے خاندان کے پانچ افراد کی لاشیں ہیں
45 سالہ عائشہ معاری ایک ٹرک کے پیچھے موجود باڈی بیگ کو سہلاتے ہوئے مسلسل رو رہی ہیں۔ غمزدہ چہرے کے ساتھسسکیاں لیتی ہوئی عائشہ زیر لب کہہ رہی ہیں کہ ’تم مجھے اکیلا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ تمھارے ہی سہارے میں زندہ تھی، ابتمھارے بغیر میں سانسبھی کیسے لوں گی؟‘
عائشہ کے سامنے ان کے خاندان کے پانچ افراد کی لاشیں ہیں۔
ٹھٹھرتی سردی کی ایک روشن دوپہر میں یہ افسردہ مناظر جنوبی ترکی اور حزب اختلاف کے زیر قبضہ شمال مغربی شام کے درمیان باب الحوا کی سرحدی کراسنگکے ہیں جہاں شام کے پناہ گزین خاندان اپنے ان پیاروں کی لاشوں کی وصولی کے لیے جمع ہیں، جوتباہ کن زلزلے کی ذد میں آ کر ہلاک ہو گئے تھے۔
ہمارے اطراففضا میں ہر طرف موت کی اداسی اور غم کے ڈیرے ہیں۔
عائشہ، ان کے شوہر نعمان اور ان کی چار سالہ پوتی ایلما زلزلے سے گرنے والی ایک چھ منزلہ عمارت کے وہ تین افراد ہیں جو زندہ بچ پائے۔
اس زلزلے میں انھوں نے اپنی دو بیٹیاں، ایک بیٹا اوردو پوتیوں کو کھو دیا اور ابھی انھیں اپنے داماد کی تلاش ہے۔
یہ خاندان آٹھ سال پہلے شام کے جنگزدہ علاقے سے جان بچا کر نئی زندگی کی امید میں پناہ کے لیے ترکی کے جنوبی شہر انطاکیہ میں آباد ہوا تھا تاہم زلزلے سے یہشہر اب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے اور وہاں کی آدھی سےزیادہ عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔
زلزلے میںہلاک ہونے والے ہر شامی کی میت کو باڈی بیگ میں لپیٹ کر باب الحوا لایا جا رہا ہے۔ ان سفیدبیگز پر نیلے رنگ کے قلم سے تفصیلات درج ہیں تاکہ وطن واپسی پر انکی شناخت با آسانی ہو سکے۔
’تم سب ایک دوسرے کا بہت اچھی طرح خیال رکھنا، میری عزیز شیریں، اپنے بھائی بہن اور میرے پیارے نواسوں کا خیال رکھنا۔‘ عائشہ یہ تمام باتیں اپنیمرنے والی بیٹی کی میت کے ساتھ سسکیوں سے روتے ہوئے کر رہی ہیں اور ساتھ ساتھ اس کے سفید کفن کو چوم رہی ہیں۔
جیسے ہی میتوں کی گاڑیروانہ ہونے لگتی ہے، عائشہ کی انگلیاں ٹرک پر ٹکی رہتی ہیں جیسے وہاپنے پیاروں کو آخری سفر پر جانے سےروک لینا چاہتی ہوں۔
عائشہ کے شوہر نعمان بھی ٹرک کو سرحد پار جاتے دیکھکر آنسووں پر قابو نہ رکھ سکے۔
اس صبحمزید پانچ ٹرکزلزلے میں ہلاک ہونے والے شام کے شہریوں کی لاشیں لے کر سرحد پر پہنچے ہیں جنھیں ملبے کے نیچے سے نکالا گیا۔
ان میں سے کچھکے بے جان جسم کمبل میں لپٹے ہوئے ہیں جبکہ باقیوں کو باڈی بیگ میں پیک کیا گیا ہے۔
BBCعائشہ کے شوہر نعمان ٹرک کو سرحد پار جاتے دیکھکر آنسووں پر قابو نہ رکھ سکےگلاس سے بنے دو انار اور دیوار پر لگی پینٹنگ کے علاوہباقی سب ملبے کا ڈھیر بن گیا
انتاکیہ میں اس غمزدہ خاندان کے اپارٹمنٹ کے ملبے میںحیرت انگیز طور پر شیلف پر دو شیشے کے بنے انار بالکل درست حالت میں موجود ہے، کمرے میں ایک پینٹنگ ابھی بھی میز کے اوپر لٹکی ہوئی ہے۔ باقی تمامکمرہ گر گیا ہے۔
عائشہ کی بیٹی ویامکے منگیتر علی پیلے رنگ کی حفاظتی جیکٹ پہنے ملبے تلے مزید لاشوں تلاشکا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
علی نے ہمیں بتایا کے وہ اپنی منگیتر سے کیسے ملے تھے۔ علی کے مطابقوہ اور ویامگزشتہچار سال سے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے تاہم ویام کے والد زلزلے سے ایک ہفتہ پہلے ہی ان کی منگنی اپنی بیٹی سے کرنے پر آمادہہوئے تھے۔
’اس رات ہمبہت دیر تک واٹس ایپ پر ایک دوسرے کے ساتھمیسجپر بات کر رہے تھے، ہمیں نیند نہیں آ رہی تھی۔ صبحچار بجے کے قریب مجھے ویام کی طرف سے ایک ٹیکسٹ میسج موصول ہوا جس میں وہ پریشان دکھائی دی۔
’کیا آپ جاگ رہے ہیں؟ میں نے ایک عجیب ڈراؤنا خواب دیکھا ہے۔‘
’اس پیغام کے بعد تسلی کے لیے میں نے اسے وڈیو کال کی۔ ابھی ہم ویڈیو کال کے بیچ میں تھے جب زمین ہلنے لگی۔’میں نے اسے تسلی دی کہ اسے اس برے خواب کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ ہم نے ایک دوسرے سے پیارکا اظہار کیا۔ اس وقت وہ اپنے بستر پر بیٹھی خاموشی سے ہنس رہی تھی۔‘
اپنی منگیتر کے آخری لمحات کویاد کرتے ہوئے علی نے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کی۔
میں نےدیکھا وہ بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس کا فون دیوار سے لگا ہوا تھا جس نے اس کی رفتار کم کی اور پھر تصویر فریز ہوئی جس کے بعدسکرین بلیک ہو گئی۔‘
علی، جوایک فٹنس ٹرینر ہیں اور انھیں شام میں حزب اختلاف کی مسلح افواج کے ساتھ جنگی تربیت کا تجربہ بھی ہے، نے اپنے کمرے میں میز کے نیچے پناہ لی اور خود کو بچانے میں کامیاب رہے۔
’جب زلزلہ تھما تو میں باہر بھاگا۔ ہمارا پورا علاقہتباہ ہو گیا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں اس گلی میں کیسےپہنچا جہاں وہ (ویام) رہتی تھی۔ تمام سڑکیں بلاک ہونے کی وجہ سے مجھے دگنا وقت لگا۔‘
یہ بھی پڑھیے
ترکی زلزلہ:105 گھنٹے بعد ملبے سے نکالے جانے والے پانچ سالہ اراس، جن کے جسم کا درجہ حرارت 28 ڈگری سیلسیس تک گر گیا تھا
ترکی اور شام میں زلزلہ: دھوکے باز کیسے مصنوعی ذہانت اور ٹک ٹاک کے ذریعے عطیہ دینے والوں کو لوٹ رہے ہیں؟
ترکی کا زلزلہ جہاں ماں اپنے دس دن کے بچے کے ساتھ ملبے کے پہاڑ تلے چار دن تک دفن رہی
جب علیویام کے اپارٹمنٹپہنچے تو وہاں مقامی افراد اپنی مدد آپکے تحتامدادی کارروائیوں میں مصروف تھے۔ علی نے دوستوں کو اپنے ساتھ مدد کے لیے بلایا۔ گھنٹوں گزر گئے اور کوئی سرکاری امداد نہ آئی۔
علی کے مطابقوہ اور ان کے دوست شام کے ان علاقوں سےتعلق رکھتے ہیں جہاں جنگ کے دوران اکثر بمباری کی جاتی ہے، اس لیے انھیں تلاش اور بچاؤ سے متعلق کچھ تربیت اور تجربہ ہے۔
زلزلے سے تباہ ہونے والے علاقے کا ایک حصہ شامی حکومت کے زیر انتظام میں ہے جبکہ دوسرے حصے، جن میں ادلببھی شامل ہے، خزب اختلاف کےزیر قبضہ ہے۔ ویام کے خاندان کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔
اس صورتحال میں امداد اور بچاؤ کی سرگرمیوں کے درمیان رابطے انتہائی پیچیدہہیں اور اس میں مختلف مسلح گروہوں اور ان کی حمایت کرنے والے مختلف ممالک کے درمیان پس پردہ بہت چیزیں بیک وقت شامل ہوتی ہیں۔
علیکو اس وقت بین الاقوامی برادری سےشکوہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’طاقتور ممالک شام میں بڑے تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں اور اس کے نتائج وہاں رہنے والے بھگت رہے ہیں۔‘
’تمام دنیا ترکی کی مدد کے لیے آئی اور اللہ کا شکر ہے کہ ترکی خودبھی ایک مضبوط ملک ہے لیکن شام کا کیا ہو گا؟میں سیاست کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا لیکن انسانی ہمدردیکی بنیاد پر اگر سوچیں تو ہم شامیوں کے پاس بجلی، صاف پانی، یہاں تک کہ سر چھپانے کو گھر بھی نہیں۔‘
BBCعلیکو بین الاقوامی برادری سےشکوہ ہے
علی کے مطابق ’ہمارے گھرپہلے جنگ سے تباہ ہوئے اور اب زلزلے سے۔ یقیناً جو کچھ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اسے ہم قبول کرتے ہیں لیکن ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہبس اب بہت ہو گیا۔‘
آٹھ دن کی تلاش کے بعد علی کو اپنی منگیتر ویام کی لاش ملی جنھوں نے مرتے وقت اپنے بھائی محمد کو گلے سے لگایا ہوا تھا۔
اب علی شامیوں کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر دوسرے شامی خاندانوں کو تلاش کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس تلاش میں وہ کنکریٹ کی دھول سے اٹ چکے ہیں۔ اس غبار نے ان کی آنکھوں کی چمک کو مدہم اور ان کے بالوں کوسفید کر دیا ہے۔
ترک حکام کے مطابق زلزلے کے بعد پہلے 10 دن کے دوران 2300 سے زائد لاشیں سرحد پار شام بھیجی گئی ہیں۔
ترکی کی سرحدی پولیس کے ایک اہلکار نے نامنہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ ’یہہمارے لیے ایک بڑا آپریشن رہا ہے، جو بیک وقت ان کے لیے ایک چیلینج بھی ہے۔ بعض اوقات ہم لاشیں بھیجنے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف انھیں وصول کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔‘
جب ہم وہاں سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے 25 دن کے بچے کی لاش کو ایک چھوٹے سے کمبل میں لپٹے ہوئے ہے اور ادلب صوبے کے حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے میں اس کی لاش کو واپس اپنے گھر لے جانے کے لیے مدد مانگ رہا ہے۔
اس نے اسے ملبے سے نکالا، پھر اسے طبی علاج کے لیے سرحد پار ترکی لایا لیکن وہ بچ نہ سکا۔
معاری خاندان نے آخرکار زلزلے کے 10 دن بعد آخری شخص کو برآمد کر لیا جس کی وہ تلاش کر رہے تھے اور وہ ان کے داماد کی لاش تھی۔
میں نے علی سے پوچھا کہ شامی مہاجرین اپنے خاندان کی لاشیں شام کیوں بھیج رہے ہیں؟
’یہ ہمارا گھر ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں اب بھی امید اور یقین ہے کہ ایک دن ہم واپس جائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پیارے وہاں ہمارا انتظار کریں۔‘