چین میں طبی اخراجات میں ملنے والی حکومتی امداد میںکمی کے خلاف ریٹائرڈ ملازمین مظاہرے کر رہے ہیں اور کچھ شہروں میں عمر رسیدہ افراد کے ہجوم سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
ووہان، وہ بڑا شہر جہاں کووڈ کے پہلے مریضوں کی تشخیص ہوئی تھی، وہاں بدھ کے روز ریٹائرڈ افراد نے دوسری مرتبہ جلوس نکالا۔ اس کے علاوہ شمال مشرقی شہر دالیان میں بھی مظاہرہ ہوا ہے۔
ایک ہفتے کے دوران ریٹائرڈ ملازمین کے دوسرے مظاہرے کے بعد صدر شی جنگ پِنگ کی اتنتظامیہ پر ایک ایسے وقت میں دباؤ بڑھ گیا ہے جب کمیونسٹ پارٹی کے سالانہ اجلاس ’نیشنل پیپلز کانگریس‘ میں چند ہفتے رہ گئے ہیں۔اس سالانہ کانگریس میں پارٹی کی آئندہ برس کی مقامی قیادت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
ووہان میں پہلا مظاہرہ آٹھ فروری کو اس وقت ہوا جب صوبائی انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ حکومت کی جانب سے ریٹائرڈ افراد کو ملنے والے طبی اخراجات میں کمی کرنے جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان مظاہروں میں زیادہ تر عمر رسیدہ لوگ حصہ لے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ طبی امداد میں کمی ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب ادویات اور علاج کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ چین میں ہیلتھ انشورنس کے مسائل کو حل کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، لیکن ریٹائرڈ افراد کے مظاہرے ملک کے مختلف صوبوں تک پھیلتے جا رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی عوام ایک مرتبہ پھر مظاہروں کی طاقت کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ برس کے آخر میں ملک کے کئی شہروں میں ہزاروں نوجوانوں کے مظاہروں کے بعد حکومت ’زیرو کووِڈ‘ کی پالیسی کو ختم کرنے پر مجبور ہو گئی تھی کیونکہ لوگ آئے روز کے کووڈ ٹیسٹ اور اس شدید لاک ڈاؤن سے تنگ آ گئے تھے جس کی وجہ سے معشیت تباہ ہوتی جا رہی تھی۔
لیکن زیرو کووڈ کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کے بعد دیکھے ہی دیکھتے کورونا پورے ملک میں پھیل گیا اور صحت عامہ کے اداروں پر دباؤ میں شدید اضافہ ہوگیا۔اگرچہ نئی لہر کے دوران مرنے والوں کی اصل تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہمبی بی سی کی اطلاعات کے مطابق کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی اکثریت عمر رسیدہ افراد پر مشتمل تھی۔
ووہان اور دالیان کے شہری حکام کا کہنا ہے کہ انہیں عمر رسیدہ افراد کے تازہ ترین مظاہروں کے بارے میں علم نہیں ہے اور وہ ان اطلاعات پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔ جب ہم نے مقامی تھانوں سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تو وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
تاہم، ریڈیو فری ایشا کے مطابق ووہان میں ہونے والے مظاہروں میں زیادہ تر ایسے ریٹائرڈ افراد تھے جو فولاد اور سٹیل کی صنعت سے وابسطہ رہ چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین کمیونزم کا عالمی ترانہ گا رہے تھے۔ ماضی میں اس ترانے سے مراد یہی لی جاتی رہی ہے کہ مظاہرین حکومت یا کمیونسٹ پارٹی کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں۔
Getty Imagesزیرو کووڈ کے پالیسی کے دوران چینمیں بڑے پیمانے پر کووڈ کے ٹیسٹ کا سلسلہ جاری رہا
تین برس تک کووڈ کے بحران کی لپیٹ میں رہنے کے بعد جب حکام نے زیرو کووڈ کی حکمت عملی کو اچانک ختم کر دیا تو اس وقت سے لوگ ملک کی صحت عامہ کی پالسیسوں سے خاصے نالاں نظر آ رہے ہیں، خاص طور پر ریٹائرڈ لوگ۔
چین میں کووڈ پر قابو پانے کے لیے جو حکمت عملی طے کی گئی تھی اس پر صدر شی جنگ پِنگ نے ہمیشہ اپنی ذاتی مہر ثبت کی ہے، لیکن جب زیرو کووِڈ کی پالیسی کو بیک جنبش قلم تبدیل کر دیا گیا تو کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کو یہ وضاحت دینے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا کہ یہ اچانک یوٹرن کیوں ضروری تھا۔
اس کے علاوہ چینی حکومت خود عوامی سطح پر ان ممالک کا مذاق اڑاتی رہی ہے جنھوں نے لاک ڈاؤن کی پابندیاں جلد ختم کر دی تھیں۔ چینی حکام کا کہنا تھا کہ ان ممالک نے لاک ڈاؤن ختم کر کے بلاوجہ اپنے لوگوں کو قربان کر دیا۔
لیکن پھر چینی حکومت نے پالیسی بدل دی اور باقی ملکوں کی نسبت زیادہ تیزی سے تمام پابندیاں ختم کر دیں۔
اب چین میں اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ شدید پابندیوں کی وجہ سے معیشت کو جو نقصان پہنچا اس سے بچا جا سکتا تھا۔
ٹوئٹر کی طرز پر چین میں استعمال کیے جانے والے سوشل میڈیا فورم وائبو پر ’ہیلتھ انشورنس‘ کے نام سے چلنے والا ٹرینڈ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا لیکن اب اسے ’ٹاپ ٹرینڈز‘ کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔
اس ہیش ٹیگ کے ساتھ لگائی جانی والی تصویر ووہان کے اس پارک سے مماثلت رکھتی تھی جہاں گزشتہ ہفتے بھی مظاہرہ ہوا تھا، لیکن بعد میں اس تصویر کو سینسر کر دیا گیا اور بتایا جا رہا ہے کہ اب یہ تصویر دکھائی نہیں دیتی۔
اگرچہ حالیہ مظاہروں کے تناظر میں چین میں سینسر شِپ کا پورا سرکاری ڈھانچہ حرکت میں آ گیا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر بہت بڑی تعداد میں لوگ ریٹائرڈ افراد کے مظاہروں سے یکجہتی کا کا اظہار کر رہے ہیں۔
اگر چینی حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں مزید مظاہرے نہ ہوں تو اسے اس مسئلے سے نمٹنے کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔