وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جب بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے عوام پر مزید ٹیکس لگانے کی بات کر رہے تھے تو ایوان میں موجود ’اپوزیشن‘ ایسے خاموش ہو کر بیٹھی تھی جیسے منی بجٹ حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن کا کوئی رکن پیش کر ر ہا ہو۔
وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران نہ کوئی شور شرابا ہوا نہ کوئی ڈیسک بجایا گیا اور نہ ہی کسی رکن نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر سپیکر قومی اسمبلی اور نہ ہی وزیر خزانہ کی طرف پھینکیں اور نہ ہی اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا۔
عموماً ایسے اجلاسوں میں وزیر خزانہ کو شور شرابے سے بچنے کے لیے اپنے کانوں پر ’نائز کنسلیشن ڈیوائس لگانی پڑتی ہے۔‘
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منی بجٹپیش کرتے ہوئے اس کو لانے کی تمام تر ذمہ داری سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف پر عائد کر دی اور کہا کہ انھوں نے جو آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا موجودہ حکومت اس معاہدے کا پاس کر رہی ہے اس لیے آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کے لیے منی بجٹ لانا ضروری تھا۔
وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران کوئی شور شرابہ تو نہ ہوا تاہم قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلے حکمراں اتحاد کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت تنخواہ اور مراعات نہیں لیں گے تاکہ لوگوں میں یہ رائے قائم کروائی جا سکے کہ مہنگائی کی وجہ سے وہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔
وزیر خزانہ قومی اسمبلی میں اپنی تقریر ختم کر کے مشکل سے ہی اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوں گے کہ اُنھیں بتایا گیا کہ اگلے ہال میں سینیٹ کا اجلاس ہو رہا ہے اور اجلاس کے ایجنڈے پر منی بل پیش کرنا بھی ہے۔
یہ سنتے ہی وفاقی وزیر خزانہ نے اپنا سامان سمیٹا اور سینیٹ کے اجلاس میں چلے گئے۔
عمومی طور پر بجٹ پر بحث کا آغازقومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کرتے ہیں لیکن ان کی جگہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم حان نے بحث کا آغاز کیا اور وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ان لوگوں کو غریب عوام صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب ان سے ووٹ لینا ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جو بھی حکومت آئی ہے انھوں نے غریب آدمی کا استحصال ہی کیا ہے۔ عوام ٹیکس دیتی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ تاجر برادری اور صنعت کاروں پر ٹیکس لگائے۔‘
نور عالم خان نے الزام عائد کیا کہ ’ایف بی آر کے اہلکار بدعنوان ہونے کی وجہ سے عوام کے ٹیکسز کے فوائد عوام تک نہیں پہنچ رہے۔‘
نور عالم خان نے مطالبہ کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ ’عمران‘ اور معاہدہ ’ڈار‘ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے تاکہ عوام کو بھی تو معلوم ہو کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کن شرائط پر معاہدہ ہوا ہے۔
نور عالم خان کی مختصر تقریر کے بعد گرینڈ ڈیموکریٹک الآئنس کی رکن اسمبلی سائرہ بانو نے پوائنٹ آف آرڈرپر بولنے کی کوشش کی لیکن سپیکر نے اجلاس جمعے کے صبح تک ملتوی کر دیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی طرف سے مقامی صحافی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے معاملے کی مذمت کی گئی۔
سائرہ بانو کو ایوان میں بات کرنے کا موقع تو نہیں ملا البتہ انھوں نے ایوان سے باہر آکر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
انھوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے پڑھی ہوئی تقریر پڑھی اور کہا کہ وہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
Getty Images
انھوں نے کہا کہ ’اسحاق ڈار کو تو وطن واپس آنا ہی نہیں چاہیے تھا جب کچھ کر نہیں سکتے تو اتنے بڑے بڑے دعوے کیوں کرتے ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس منی بجٹ کے بعد پچیس سے پچاسہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے کو تو بھول جائیں اب ایک لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والے کو بھی اپنے گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ اشرافیہ ہیں اور ان کا رکھ رکھاو دیکھیں۔ وہ اشرافیہ ہیں تو پھر عوام ’بدمعاشیہ‘ ہیں کیونکہ اتنے مشکل حالات میں وہ جی رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عوام پر آئے روز ٹیکس لگا کر انھیں تڑپا تڑپا کر مارنے سے بہتر ہے کہ جو ایٹم بم بنایا ہے اس کو عوام پر کیوں نہیں گرا دیتے۔‘
قومی اسمبلی اجلاس کے برعکسسینیٹ کے اجلاس اگرچہ چند منٹ ہی جاری رہا لیکن اس میں حزب مخالف بھرپور انداز میں احتجاج کرتی ہوئی نظر آئی۔
چیئرمین سینیٹ نے اجلاس کے ایجنڈے میں موجود آئیٹم کی نشاندہی کی تو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف وسیم سجاد نے نکتہ اعتراض پر بات کرنا چاہی تو چیئرمین نے اس کی اجازت نہیں دی جس پر حزب مخالف کے سینیٹرز نے ایوان کے اندر نعرے بازی اور ڈیسک بجانا شروع کر دیے۔
بعدازاں انھوں نے چییرمین کے ڈائس کے سامنے کھڑے ہو کر ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور انھیں ہوا میں اچھال دیا۔
اپوزیشن کے اس شور شرابے کے باوجود اسحاق ڈار نے منی بجٹ سے متعلق ایجنڈا ایٹم پڑھا جس کے بعد چیئرمین سینٹ نے متعقلہ قائمہ کمیٹی کو یہ ہدایات دے کر بھجوا دیا کہ جمعے کے روز صبح ساڑھے دس بجے تک اس بل پر اپنی تجاویز کو حتمی شکل دیں۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم کا کہنا ہے کہ ’وہ خزانہ سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس بلکی مخالفت کریں گے۔‘
مالیاتی بل کی منظوری قومی اسمبلی میں ہوتی ہے اور سینیٹ سے اس بل میں کوئی تجاویز دی جاتی ہیں تو اس کو منظور کر نا یا مسترد کرنے کا اختیار قومی اسمبلی کے پاس ہے۔
بجٹ اجلاس کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس کی سکیورٹی میں قابل ذکر اضافہ کیا گیا تھا اور جن صحافیوں کے پاس موجودہ سیشن کے انٹری پاس نہیں تھے انھیں پارلیمنٹ ہاؤس میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔