ایک ماں نے اپنی بیٹی کا ریپ کرنے والے ’مردہ‘ مجرم کو کیسے سزا دلوائی

بی بی سی اردو  |  Feb 13, 2023

گذشتہ سال انڈیا کی ریاست بہار میں ایک عورت کو بتایا گیا کہ اس کی بیٹی کا ریپ کرنے والا مجرم مر چکا ہے اور کیس بند کر دیا گیا۔ اس خاتون نے اس دعوے پر سوال اٹھایا اور سچ سے پردہ بھی جس کے بعد کیس دوبارہ کھولا گیا اور ان کی بیٹی کو انصاف ملا۔

یہ گذشتہ سال فروری کی ایک صبح کا واقعہ ہے۔ دو افراد گنگا کے کنارے ایک شمشان گھاٹ پہنچے جہاں ایک شخص کی آخری رسومات ادا کی جانی تھیں۔ ان کے پاس لکڑیاں تو تھیں لیکن کوئی لاش نہیں تھی۔

ان افراد نے آگ جلانے کے لیے لکڑیاں ترتیب دیں اور پھر ان میں سے ایک نے سفید چادر اوڑھی اور خود ہی ان پر لیٹ گیا۔

دوسرے شخص نے مزید لکڑیاں اس کے اوپر رکھ دیں حتیٰ کہ اب صرف لیٹنے والے شخص کا سر ہی نظر آ رہا تھا۔

ان مناظر کی دو تصاویر بنائی گئیں۔ یہ واضح نہیں کہ تصاویر کھینچنے والا کون تھا اور آیا اس جگہ کوئی تیسرا شخص بھی موجود تھا۔

یہ مردہ شخص 39 سالہ سرکاری سکول ٹیچر نیرج مودی تھا جبکہ دوسرا شخص اس کا باپ، 60 سالہ کسان، راج رام مودی تھا۔

اس کے بعد راج رام مودی 100 کلومیٹر دور ایک عدالت میں اپنے وکیل کے ساتھ پیش ہوا جہاں اس نے ایک حلف نامے پر دستخط کیے کہ اس کا بیٹا نیرج مودی 27 فروری کو گاؤں میں ’ہلاک‘ ہو گیا تھا۔

اس حلف نامے کے ساتھ دو تصاویر اور لکڑیوں کی خریداری کی رسید بطور ثبوت پیش کیے گئے۔

چھ دن قبل نیرج مودی پر پولیس نے ریپ کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ مودی پر الزام تھا کہ اس نے اپنی ایک 12 سالہ طالبہ کا اکتوبر 2018 میں گنے کے کھیت میں ریپ کیا تھا جس کی ویڈیو بنا کر بچی کو دھمکایا گیا تھا کہ یہ فوٹیج انٹرنیٹ پر جاری کی جا سکتی ہے۔

مودی کو اس بچی کی ماں کی درخواست پر حراست میں لیا گیا لیکن دو ماہ بعد وہ ضمانت پر رہا ہو گیا۔

گذشتہ سال مودی کی مبینہ ہلاکت کے بعد اس کے باپ نے عدالت کو مطلع کیا اور مقامی حکام نے اس کی موت کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا۔

مئی میں عدالت نے مقدمہ اس نکتے پر بند کر دیا کہ ’واحد ملزم ہلاک ہو چکا تھا۔‘

صرف ایک شخص کو یہ شبہ تھا کہ مودی نے اپنی موت کا ڈرامہ رچایا تھا اور وہ سزا سے بچنے کے لیے روپوش ہو چکا تھا۔ یہ اس بچی کی والدہ تھیں جس کا ریپ کیا گیا تھا جو اسی گاؤں کی رہائشی تھیں جس میں مودی رہتا تھا۔

جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’جیسے ہی مجھے پتا چلا کہ مودی مر چکا ہے میں جان گئی تھی کہ یہ ایک جھوٹ ہے۔ میں جانتی تھی کہ وہ زندہ ہے۔‘

انڈیا کے تقریباً سات لاکھ دیہات میں زیادہ تر اموات گھروں میں ہوتی ہیں۔ ایک 54 سال پرانے قانون کے مطابق موت اور پیدائش کا سرٹیفیکیٹ تو ضروری ہے لیکن موت کی وجوہات کا معلوم ہونا ضروری نہیں۔

بہار کے کسی گاؤں میں جب کسی کی موت ہوتی ہے تو اس کے خاندان کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ مرنے والے کا مخصوص بائیو میٹرک شناختی نمبر درج کروائیں جس پر گاؤں کے پانچ افراد کے دستخط ہوں جو موت کی تصدیق کریں۔

یہ دستاویزات لوکل پنچایت یا گاؤں کی کونسل میں جمع کرائے جاتے ہیں جس کے اراکین، بشمول مقامی رجسٹرار کے، ان کا جائزہ لیتے ہیں اور اگر سب باتیں درست ہوں تو ایک ہفتے میں موت کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔

راج رام مودی نے بھی ایسا ہی کیا اور اپنے بیٹے کی موت کا سرٹیفیکیٹ بنوا لیا تاہم اس سرٹیفیکیٹ پر اس کے بیٹے کی موت کی وجہ بیان نہیں کی گئی۔ شمشان گھاٹ میں جلانے کے لیے لکڑیوں کی خریداری کی رسید پر بھی صرف اتنا ہی درج تھا کہ موت بیماری سے ہوئی تھی۔

گذشتہ سال مئی میں مقدمہ درج کروانے والی خاتون کو ایک وکیل سے علم ہوا کہ کیس بند کر دیا گیا ہے کیونکہ مودی مر چکا ہے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے گھر گھر جا کر لوگوں سے معلوم کیا کہ کیا واقعی ایسا ہوا ہے لیکن ان کے مطابق کسی کو بھی اس بات کاعلم نہیں تھا۔ انھوں نے ایک عدالت سے رجوع کیا کہ موت کی تحقیقات کی جائیں لیکن جج نے کہا کہ ان کو اس بات کا ثبوت دینا ہو گا کہ مودی زندہ تھا۔

مئی میں ہی انھوں نے ایک مقامی عہدیدار کو درخواست دی کہ گاؤں کی کونسل نے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر موت کا سرٹیفیکیٹ بنا دیا ہے جس کی تحقیقات ضروری ہیں۔

اس عہدیدار نے گاؤں کی کونسل کو مطلع لیا اور تحقیقات کا حکم دیا تو راج رام مودی سے بیٹے کی موت کے نئے ثبوت مانگے گئے جن میں موت کے بعد کی تصاویر، آخری رسومات کی تصاویر اور پانچ گواہوں کے بیانات شامل تھے۔

گاؤں کی کونسل کے اراکین نے تقریباً ڈھائی سو گھروں کے رہائشیوں سے بھی ملاقات کی لیکن کسی نے مودی کی موت کے بارے میں نہیں سنا تھا۔

ہندو مذہب میں کسی کی موت پر یہ رواج ہے کہ قریبی عزیز سر منڈوا لیتے ہیں لیکن مودی کے خاندان میں سے کسی نے بھی ایسا نہیں کیا تھا۔

BBC

تفتیش میں شامل پولیس افسر روہت کمار نے بتایا کہ ’مودی کے عزیز واقارب کو بھی اس کی موت کے بارے میں علم نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کی موت ہوتی تو آخری رسومات گھر پر ہوتیں۔‘

سوال بڑھ رہے تھے۔ گاؤں کی کونسل کے اراکین نے یہ سوال راج رام مودی سے ایک بار پھر کیے تو وہ کوئی تازہ ثبوت فراہم نہیں کر پایا۔

کونسل کے سیکرٹری دھرمیندر کمار کہتے ہیں کہ ’جب ہم نے چند اور سوال کیے تو راج رام مودی نے تسلی بخش جواب نہیں دیے۔‘

تحقیقات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے کہ مودی نے اپنی موت کا ڈرامہ رچایا تھا اور دونوں باپ بیٹے نے مل کر جعلی دستاویزات سے موت کا سرٹیفیکیٹ بنوایا تھا۔

پولیس کو علم ہوا کہ سکول ٹیچر مودی نے اپنے پانچ طالب علموں کے والدین کے شناختی کارڈ نمبر حاصل کیے اور ان کے جعلی دستخط خود ہی کر لیے۔ مودی نے ان والدین کو بتایا تھا کہ اس کو یہ نمبر اس لیے درکار ہیں کیونکہ وہ ان کے بچوں کے لیے سکالر شپ کی کوشش کر رہا ہے۔

23 مئی کو حکام نے مودی کی موت کا سرٹیفیکیٹ کینسل کر دیا۔ پولیس نے اس کے والد کو دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

روہت کمار کہتے ہیں کہ ’میں نے ایسا کوئی کیس آج تک نہیں دیکھا۔ یہ منصوبہ بہترین تھا۔‘

جولائی میں عدالت نے کیس پھر سے شروع کر دیا اور کہا کہ سزا سے بچنے کے لیے ملزم نے دھوکہ دیا تھا۔ اکتوبر میں نیرج مودی نے خود کو عدالت کے حوالے کر دیا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران اس نے اپنا دفاع کیا اور دعویٰ کیا کہ اس پر ریپ کا الزام جھوٹا ہے تاہم گذشتہ ماہ عدالت نے اسے مجرم قرار دیتے ہوئے 14 سال قید کی سزا سنائی۔

عدالت نے اسے متاثرہ بچی کو تین لاکھ روپے بطور جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔

مودی کے والد راج رام مودی بھی اب جیل میں ہیں۔ ان پر دھوکہ دہی کا الزام ہے جس میں ان کو سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

متاثرہ بچی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے تین سال تک عدالت کے چکر لگائے تاکہ میری بچی کا ریپ کرنے والا سزا پا سکے اور پھر ایک دن اس کے وکیل نے مجھے کہا کہ وہ مر چکا ہے۔ کوئی شخص ایسے کیسے غائب ہو سکتا ہے؟‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’وکیل نے مجھے کہا کہ اس موت کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے نیا مقدمہ کرنے میں بہت پیسہ لگے گا اور کئی لوگوں نے کہا کہ ملزم جیل سے چھوٹ کر انتقام لے گا۔‘

’مجھے ان باتوں سے فرق نہیں پڑا۔ میں نے کہا میں پیسوں کا بندوبست کر لوں گی۔ میں ڈرتی نہیں ہوں۔ میں نے جج اور حکام سے کہا کہ سچ تلاش کریں۔‘

جب میں ان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر پہنچا تو یہ ایک تنگ سی گلی تھی۔ وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرہ نما گھر میں رہتی ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔

اس تاریک کمرے میں اناج رکھنے کے لیے ایک برتن، زمین میں دھنسا ہوا ایک چولہا ایک چارپائی اور ایک رسی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

اس گاؤں میں پانی اور بجلی تو ہے لیکن ان کے شوہر کو نوکری کی تلاش میں 1700 کلومیٹر دور انڈیا کی ایک جنوبی ریاست میں جانا پڑا جہاں وہ مزدوری کرتے ہیں اور پیسے گھر بھجواتے ہیں۔

2019 میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ انڈیا کے تمام دیہات میں اب بیت الخلا ہوں گے تاہم اس گاؤں کے متعدد گھروں میں ٹائلٹ نہیں تھا اور اسی لیے ان کی بیٹی کو گنے کے کھیت میں جانا پڑتا تھا۔

مقدمے کے فیصلے میں جج نے لکھا کہ ’یہیں نیرج مودی نے پیچھے سے اس پر حملہ کیا اور اس کا منہ بند کر کے زبردستی اس کا ریپ کیا۔‘

’نیرج نے بچی سے کہا کہ اسے اپنا منہ بند رکھنا ہو گا کیونکہ اس نے ویڈیو بنا لی ہے جسے وہ وائرل کر سکتا ہے۔‘

اس بچی کی والدہ نے بتایا کہ ’اس واقعے کے بعد میری بیٹی کی زندگی بند ہو کر رہ گئی۔‘

حملے کے 10 دن بعد ان کی سہمی ہوئی بیٹی نے ان کو آگاہ کیا تو وہ پولیس کے پاس پہنچیں۔ اگلے چند دنوں میں ان کی بیٹی نے گواہی دی تو اس نے پولیس کو بتایا کہ نیرج مودی اکثر سکول میں ان کو پیٹتا تھا۔

نیرج کی گرفتاری کے بعد اس نے دوبارہ سکول جانا شروع کیا لیکن ضمانت پر نیرج کی رہائی کے بعد یہ سلسلہ پھر ٹوٹ گیا۔ وہ چار سال سے سکول نہیں گئی ہیں۔ ان کی سکول کی کتابیں ایک کباڑیے کو بیچی جا چکی ہیں۔

وہ اپنا زیادہ وقت اب اس تاریک کمرے میں ہی گزارتی ہے۔

اس کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ ’میں اسے باہر بھیجنے سے ڈرتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ہم اس کی شادی کر سکیں گے۔‘

اس کیس سے جڑے بہت سے سوال ابھی باقی ہیں۔ گاؤں کی کونسل نے دستاویزات کا جائزہ لیے بغیر موت کا سرٹیفیکیٹ کیسے جاری کر دیا؟

خاتون نے کہا کہ ’جب میں نے بعد میں ان سے سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی تھی۔‘

پربھت جھا ٹورونٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’نیرج مودی کا کیس کافی غیر معمولی ہے۔ ہم نے آج تک ایسا کیس نہیں دیکھا۔‘ وہ انڈیا میں اموات پر تحقیق کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں اور موت کے سرٹیفیکیٹ پر نئی پابندیاں لگانے میں احتیاط کرنا ہو گی کیونکہ اس سے معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اثاثوں کی منتقلی پیچیدہ ہو جائے گی۔

تاہم ان خاتون کے سامنے یہ اہم سوال موجود ہے کہ ان کی بیٹی کا مستقبل کیسا ہو گا۔

’مجھے خوشی ہے کہ جس شخص نے اس کے ساتھ ایسا کیا وہ اب جیل میں ہے لیکن میری بیٹی کی زندگی بند ہو کر رہ گئی۔ اس کے ساتھ اب کیا ہو گا؟‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More