’انڈیا کے راسپوتین‘ کہلائے جانے والے یوگا گرو جو وزرا اور بیوروکریسی سے زیادہ بااثر تھے

بی بی سی اردو  |  Feb 12, 2023

انڈیا کی طاقتور وزیر اعظم کے یوگا گرو ہونے کے ناطے، دھیریندر برہمچاری کا اتنا سیاسی اثر و رسوخ تھا کہ وزرا اور اہم لوگ ان سے ملنے کے لیے قطار میں لگتے تھے۔

وہ نیلے رنگ کی ٹویوٹا کار خود چلاتے تھے۔ یہی نہیں ان کے پاس کئی پرائیویٹ جیٹ طیارے تھے جن میں چار نشستوں والا سیسنا، 19 نشستوں والا ڈورنیئر اور مال فائیو طیارے شامل تھے۔ برہمچاری انھیں خود اڑاتے تھے۔

ان کا سیاسی دبدبہ اس قدر تھا کہ جب وہ ناراض ہوتے تو کسی بھی بیوروکریٹ کا تبادلہ اور وزرا کے محکمے تک تبدیل کروا دیتے۔

انڈیا کے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال نے اپنی سوانح عمری ’میٹرز آف ڈسکریشن: این آٹو بائیوگرافی‘ میں دھیریندر برہمچاری کے غلبے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’جب میں ورکس اینڈ ہاؤسنگ کا وزیر مملکت تھا، اندرا گاندھی کے یوگا گرو دھیریندر برہمچاری نے مجھ پر گول پوسٹ آفس کے قریب ایک سرکاری زمین کو اپنے آشرم کے نام پر منتقل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ میرا انھیں یہ قیمتی حکومتی زمین دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے فائل کو آگے نہیں بڑھنے دیا، آخر کار جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو انھوں نے ایک شام مجھے فون کیا اور دھمکی دی کہ اگر ان کا کام نہ ہوا تو وہ میری تنزلی کروا دیں گے۔‘

ایک ہفتہ بعد جب کابینہ میں ردوبدل کیا گیا تو اوماشنکر ڈکشٹ کو کابینہ میں وزیر بنا کر اندر کمار گجرال سے اوپر رکھا گیا۔

گجرال لکھتے ہیں کہ ’اگلے دن جب میں نے اندرا گاندھی کو پوری کہانی سنائی کہ کس طرح سوامی نے مجھے دھمکی دی، تو وہ خاموش رہیں اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوماشنکر ڈکشٹ نے بھی وہ زمین دھیریندر برہمچاری کو دینے سے انکار کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ دنوں بعد ان کا بھی تبادلہ ہو گیا اور ہماری جگہ ان کی بات ماننے والے وزرا نے لے لی۔‘

یوگا گرو جو وزرا سے زیادہ سیاسی طاقت رکھتے تھے

اتنا ہی نہیں، 1963 میں بھی دھیریندر برہمچاری نے اس وقت کے وزیر تعلیم کے ایل شریمالی سے اپنے یوگا سینٹر کے لیے گرانٹ کی تجدید کرنے کی درخواست کی، لیکن شریمالی نے اس کے بجائے ان سے گذشتہ سال دی گئی گرانٹ کی آڈٹ رپورٹ طلب کی۔ اندرا گاندھی نے یہ معاملہ وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے سامنے اٹھایا۔

نہرو نے شریمالی سے بھی بات کی لیکن انھوں نے برہمچاری کی درخواست قبول نہیں کی۔ شریمالی نے اگست 1963 میں استعفیٰ دے دیا۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انھیں نہرو کی کابینہ سے جان بوجھ کر ہٹا دیا گیا تھا۔

اسی طرح این کے سنگھ، جو مالیاتی کمیشن کے چیئرمین تھے، نے تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ دھیریندر برہمچاری اس بات پر فخر کرتے تھے کہ انھوں نے ان کے والد ٹی کے سنگھ کو اس لیے برخاست کروا دیا تھا کہ انھوں نے زمین حاصل کرنے میں ان کی مدد نہیں کی۔

ٹی کے سنگھ اس وقت ملک کے فنانس سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ ان کے بیٹے این کے سنگھ بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

برہمچاری 12 فروری 1924 کو بہار کے مدھوبنی ضلع میں پیدا ہوئے۔ شروع میں ان کا نام دھیریندر چودھری ہوا کرتا تھا۔ 13 سال کی عمر میں انھوں نے گھر چھوڑا اور لکھنؤ کے قریب گوپال کھیڑا میں مہارشی کارتکیہ سے یوگا سیکھا۔

دھیریندر برہمچاری نے نہرو اور اندرا دونوں کو یوگا سکھایا

دھیریندر 1958 میں دہلی پہنچے۔ یشپال کپور نے انڈیا ٹوڈے میگزین کو بتایا تھا کہ سوامی کی اندرا گاندھی سے پہلی ملاقات کشمیر کے علاقے شکار گڑھ میں ہوئی تھی۔

کیتھرین فرینک اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ ’برہمچاری نے سب سے پہلے نہرو کو یوگا سکھانا شروع کیا۔ کچھ ہی دنوں میں لال بہادر شاستری، جے پرکاش نارائن، مرارجی دیسائی اور ڈاکٹر راجندر پرساد جیسے کئی دوسرے سیاست دان بھی ان کے پیروکار بن گئے۔ 1959 میں انھوں نے وشویاتن یوگا آشرم قائم کیا جس کا افتتاح وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔‘

کیتھرین کی کتاب کے مطابق اس آشرم کو وزارت تعلیم سے ایک بڑی گرانٹ ملی تھی اور سوامی کو جنتر منتر روڈ پر ایک سرکاری بنگلہ بھی ہاؤسنگ کی وزارت نے الاٹ کیا تھا۔

اندرا گاندھی کی قریبی دوست ڈوروتھی نارمن اپنی کتاب ’اندرا گاندھی: لیٹرز ٹو این امریکن فرینڈ‘ میں لکھتی ہیں کہ ’اندرا نے مجھے 17 اپریل 1958 کو لکھا تھا کہ وہ اب یوگا کو سنجیدگی سے لینا شروع کر چکی ہے۔‘

ڈوروتھی مزید لکھتی ہیں کہ ’دراصل اس کی (دھیریندر برہمچاری کی) شکل اور اس کی دلکش شخصیت سب کو اپنی طرف کھینچتی ہے لیکن اس سے بات کرنا ایک طرح کی سزا ہے۔ وہ بہت توہم پرست ہے۔‘

برہمچاری نے کبھی گرم کپڑے نہیں پہنے

سینئر صحافی دلیپ باب نے 30 نومبر 1980 کو انڈیا ٹوڈے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’سوامی دھریندر برہمچاری، متنازع گرو‘ میں سوامی کو چھ فٹ ایک انچ لمبا اور دبلا پتلا آدمی قرار دیا تھا۔ وہ اپنے جسم پر صرف ایک پتلا کپڑا لپیٹے رہتے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں ہمیشہ سفید چمڑے کا بیگ ہوتا تھا جو لیڈیز بیگ جیسا لگتا تھا۔

باب نے لکھا کہ ’وہ لامحدود تضادات کا آدمی ہے۔ وہ بہت سے چہروں والا سنت ہے۔ اس کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے لیکن اس کے پاس بے پناہ طاقت ہے۔ وہ ایک ایسا بھگوان ہے جو عیش و آرام میں رہتا ہے۔ وہ ایسا یوگا گرو ہیں جن کی براہ راست وزیر اعظم تک رسائی ہے۔ لوگ ان سے ڈرتے ہیں، لیکن ان کی عزت بھی کرتے ہیں۔‘

دھیریندر برہمچاری نے کبھی گرم کپڑے نہیں پہنے۔ سرینگر میں موسم سرما ہو یا ماسکو میں صفر درجہ حرارت دھیریندر ہمیشہ ململ کا کپڑا اپنے جسم کے گرد لپیٹتے تھے۔

دلب باب لکھتے ہیں کہ ’اس وقت 60 سال کے ہونے کے باوجود، وہ ایک دن بھی 45 سال سے زیادہ عمر کے نظر نہیں آتے تھے۔‘

برہمچاری انڈیا کے ’راسپوتین‘ کے نام سے مشہور ہوئے

نٹور سنگھ، جو اندرا گاندھی کے قریبی تھے، کہتے ہیں کہ ’سوامی نے مجھے یوگا سکھایا۔ وہ یہ کام جانتے تھے۔ انھوں نے چار پانچ مہینوں میں میرا دمہ ٹھیک کر دیا۔‘

وہ ہر بدھ کو سرکاری ٹیلی ویژن دوردرشن پر یوگا پروگرام کرتے تھے، جس نے ملک بھر میں یوگا کو مقبول بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ 70 کی دہائی میں برہمچاری سنجے گاندھی کے بہت قریب ہو گئے اور ایک طرح سے گاندھی خاندان کے رکن بن گئے۔

کیتھرین فرینک اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ ’برہمچاری واحد آدمی تھے جو یوگا سکھانے کے بہانے اکیلے اندرا گاندھی کے کمرے میں داخل ہو سکتے تھے۔ آہستہ آہستہ اندرا گاندھی سے قربت کی وجہ سے انھیں انڈیا کا راسپوتین کہا جانے لگا۔‘

لیکن پی ڈی ٹنڈن، جو اندرا گاندھی کے دوست تھے نے کیتھرین فرینک کے بیان کو محض ایک افواہ قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’جواہر لال نہرو نے خود برہمچاری سے کہا تھا کہ وہ ان کی بیٹی کو یوگا سکھائیں اور کبھی کبھی وہ خود بھی برہمچاری سے یوگا سیکھتے تھے۔‘

برہمچاری اور اندرا میں ایمرجنسی کے دوران قربت بڑھی

ایمرجنسی کے دوران جیسے جیسے اندرا گاندھی کا دوسرے لوگوں پر عدم اعتماد بڑھتا گیا، ان پر برہمچاری کا اثر بڑھتا گیا۔

پپل جیاکر اپنی اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں ’برہمچاری نے اندرا گاندھی کے خوف کو ان لوگوں کے بارے میں بتا کر بڑھایا جو انھیں اور سنجے کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ پہلے وہ انھیں بتاتے کہ ان کے دشمن ان کے خلاف کیسے مافوق الفطرت رسومات انجام دے سکتے ہیں۔ طاقتوں کی مدد سے انھیں نقصان پہنچانے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں اور پھر مختلف رسومات اور منتروں کے ذریعے اس سے نجات کا راستہ بتاتے۔‘

پپل جیاکر مزید لکھتے ہیں کہ ’اندرا گاندھی نے نہ صرف ان معاملات میں ان کے مشورے کو قبول کیا بلکہ بہت سے سیاسی معاملات پر ان کے مشورے بھی لیے، یہ سوچے بغیر کہ اس میں ان کی خود غرضی چھپی ہو سکتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

آر کے دھون: سٹینوگرافر جنھیں گاندھی خاندان سے وفاداری نے انڈین سیاست میں ’کنگ میکر‘ بنا دیا

جب اندرا گاندھی کو خون کی 80 بوتلیں لگیں

اندرا گاندھی: انڈیا کی ’سب سے طاقتور وزیرِ اعظم‘ کو اُن کی کن غلطیوں نے کمزور کیا؟

ہوائی جہاز کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بغیر درآمد کیے

شاہ کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح برہمچاری نے اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنی دولت میں اضافہ کیا۔

کیتھرین فرینک لکھتی ہیں کہ ’جب تک اندرا گاندھی پی این ہکسار اور کشمیر سیکشن سے متاثر تھیں، تب تک برہمیچاری نے اتنا کام نہیں کیا، لیکن جیسے جیسے سنجے کی طاقت بڑھتی گئی، سوامی کا اندرا پر اثر بھی بڑھتا گیا۔ 1976 میں ایمرجنسی کے بعد انھوں نے حکومت سے امریکن شپ کمپنی سے چار سیٹوں والا ایم فائیو طیارہ خریدنے کی اجازت مانگی جو اسے مل گئی۔‘

کیتھرین کی کتاب کے مطابق کہ ’اس جہاز پر کوئی درآمدی ڈیوٹی نہیں لگائی گئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ انھیں کشمیر میں ایک نجی فضائی پٹی بنانے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ اس سے کئی حفاظتی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی کیونکہ یہ جگہیں پاکستان کی سرحد کے بہت قریب تھیں۔‘

جب برہمچاری کے خلاف مقدمات ختم کروا دیے گئے

سنہ 1977میں انتخابات میں اندرا گاندھی کی شکست کے بعد انکم ٹیکس حکام نے کشمیر میں اپرنا آشرم کا دورہ کیا۔ انھیں معلوم ہوا کہ ’یہ ایک عظیم الشان عمارت ہے جس میں سنگ مرمر کا فرش ہے اور اسے شاہی انداز میں سجایا گیا ہے۔ اس عمارت میں چار باتھ روم تھے اور دس ٹیلی فون نصب تھے۔‘

شاہ کمیشن نے بعد میں اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’آشرم کمپلیکس کو پرتعیش رہائش اور ہر طرح کی آسائش فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ امیروں اور بااثر لوگوں کے لیے چھٹیوں کے گھر کے طور پر بنایا گیا تھا۔‘

لیکن جب اندرا گاندھی 1980 میں الیکشن کے بعد واپس آئیں تو دھیریندر برہمچاری کے خلاف تمام الزامات واپس لے لیے گئے۔

کیتھرین فرینک لکھتی ہیں کہ ’وہ ایک بار پھر وزیر اعظم کی رہائش گاہ کا حصہ بن گئے اور انھیں اکثر گاندھی خاندان کے کھانے کی میز پر دیکھا جاتا تھا۔ وہ بہت کھاتے تھے۔ اس کے باوجود وہ 60 سال کی عمر میں بھی بہت پرکشش اور دبلے لگتے تھے۔‘

کتاب ’گرو‘ کے مصنف بھاودیپ کانگ لکھتے ہیں کہ ’سنجے دھیریندر برہمچاری کی اس بات کی تعریف کرتے تھے کہ حکومت جانے کے بعد بھی وہ مضبوطی سے ان کے ساتھ تھے۔‘

اندرا گاندھی جب دوبارہ اقتدار میں آئیں تو انھیں اس کا صلہ ملا اور ان کے خلاف تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔ ان کا طیارہ بھی ضبط کر کے انھیں واپس کر دیا گیا۔

سنجے کی موت کے ایک دن بعد، دھیریندر برہمچاری نے کہا کہ ’سنجے بہت اچھے پائلٹ تھے لیکن میں نے انھیں ہوا میں زیادہ قلابازیاں کھانے سے منع کیا تھا۔‘

بعد میں سنجے گاندھی کی آخری رسومات دھیریندر برہمچاری کی نگرانی میں عمل میں آئیں۔

سنجے گاندھی سے قربت

صفدر جنگ روڈ پر اندرا گاندھی کے بنگلے تک دھیریندر برہمچاری کی رسائی بڑھانے میں سنجے گاندھی کا اہم کردار تھا۔

رام چندر گوہا اپنی کتاب ’انڈیا آفٹر گاندھی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس وقت ایک عقیدہ تھا کہ لمبے بالوں والے دھیریندر برہمچاری پہلے اندرا گاندھی کے گھر ان کے یوگا ٹیچر کے طور پر داخل ہوئے، لیکن پھر ان کے پسندیدہ بیٹے بن گئے۔‘

سنہ 1979 میں نکھل چکرورتی نے اپنے میگزین ’مین سٹریم‘ میں سوامی کو سنجے گاندھی کے گروپ کا ایک اہم رکن بتایا۔ 1977 میں جب اندرا گاندھی الیکشن ہار گئیں تو مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ڈی پی مشرا جو کبھی ان کے قریب تھے نے سب سے پہلے انھیں تسلی دی تھی۔

اندرا ملہوترا اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’ڈی پی مشرا نے خود مجھے بتایا کہ اندرا سے اکیلے بات کرنا بالکل ناممکن تھا کیونکہ سنجے اور دھیریندر برہمچاری بار بار کمرے میں گھستے رہتے تھے۔‘

دھیریندر اور سنجے دونوں کو ہوائی جہاز اڑانے کا شوق تھا۔ ان کے مال فائیو طیارے کو سنجے نے فلائنگ پریکٹس کے لیے استعمال کیا اور اس طیارے کے ساتھ وہ انتخابی مہم کے لیے امیٹھی اور رائے بریلی جاتے تھے۔

جب مینکا کو گھر سے نکالا گیا تو برہمچاری وہاں موجود تھے

اپنے بیٹے کی موت کے بعد اندرا گاندھی دھیریندر برہمچاری پر زیادہ انحصار کرنے لگیں۔ ذاتی معاملات میں بھی وہ اس کے قریب ترین اور بااعتماد بن گئے۔

اپنی سوانح عمری ’ٹرتھ، لو اینڈ اے لٹل میلس‘ میں خوشونت سنگھ لکھتے ہیں کہ ’جب اندرا گاندھی نے گھریلو جھگڑے کے بعد اپنی بہو مینکا گاندھی کو گھر سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو وہ چاہتی تھیں کہ دھیریندر برہمچاری وہاں بطور گواہ موجود ہوں۔ مینکا اور اس کی بہن کے ساتھ جھگڑے کے دوران جب اندرا گاندھی رونے لگیں تو دھیریندر برہمچاری کو انھیں کمرے سے باہر لے جانا پڑا۔‘

خوشونت سنگھ نے لکھا کہ ’برہمچاری کا ایک بہت بڑا بنگلہ تھا، جس میں وہ کالی گایوں کا ایک بڑا ریوڑ پالتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا دودھ دواؤں کی خصوصیات سے بھرا ہوا ہے۔‘

وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے چند کلومیٹر دور ان کے یوگا آشرم میں وزراء، سفارت کار، بیوروکریٹ اور تاجر قطار میں لگے رہتے تھے۔

راجیو گاندھی نے برہمچاری کو اندرا گاندھی سے دور رکھا

اندرا گاندھی کی زندگی کے آخری دور میں دھیریندر برہمچاری کا اثر کم ہوتا رہا۔ دراصل راجیو گاندھی کے عروج کے ساتھ ہی برہمچاری کا زوال شروع ہو گیا تھا۔

کیتھرین فرینک لکھتی ہیں کہ ’برہمچاری اور راجیو ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ برہمچاری کا مغربی طرز زندگی سے بہت کم تعلق تھا۔ راجیو کو اندرا کے گھر میں سوامی کی موجودگی کبھی پسند نہیں تھی۔ اب جب انھیں وہاں سے ہٹانے کا موقع ملا تو ایسا کرنے میں انھوں نے تاخیر نہیں کی۔‘

سنجے کی موت کے بعد بہت سے لوگ برہمچاری کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ پپل جیاکر لکھتے ہیں کہ ’کمل ناتھ نے کھلے عام کہا تھا کہ اگر کوئی وزیر اعظم کے ساتھ ان کی وابستگی کو بڑھاوا دے رہا ہے، تو اس کا کوئی ذاتی مفاد ضرور ہے۔‘

ان کے گھٹتے ہوئے اثر و رسوخ کی ایک اور نشانی اس وقت ملی جب دوردرشن پر ان کا یوگا پروگرام بغیر کوئی وجہ بتائے اچانک روک دیا گیا۔

وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں برہمچاری کے داخلے پر پابندی

اندرا ملہوترا، اندرا گاندھی کی سوانح عمری ’اندرا اے پولیٹیکل اینڈ پرسنل بائیوگرافی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’اگلے دن انھیں وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہر طرف یہ خبر پھیل گئی کہ راجیو نے برہمچاری کو دروازہ دکھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘

سوامی نے اندرا گاندھی کے انتقال کے بعد ان تک پہنچنے کی آخری کوشش کی تھی۔ جب اندرا گاندھی کی آخری رسومات ہو رہی تھیں تو وہ اس پلیٹ فارم پر پہنچ گئے جہاں ان کی لاش رکھی گئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ راجیو کی ہدایت پر دھیریندر برہمچاری کو وہاں سے خاموشی سے نیچے اتارا گیا اور دوبارہ اس جگہ پر آنے نہیں دیا گیا جہاں اندرا گاندھی کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں۔

Getty Images

دھیریندر برہمچاری کے خلاف غیر ملکی ہتھیار رکھنے اور فروخت کرنے کے الزام میں فوجداری مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

اس کے بعد دہلی کے صفدر جنگ ہوائی اڈے کے استعمال کی فیس برہمچاری سے مانگی گئی، جو انھوں نے مفت میں استعمال کیا۔

ان کی پریشانیاں بڑھتی ہی چلی گئیں۔ ان کے آشرم کے ملازمین نے ہڑتال کر دی اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے ان کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔

طیارے کے حادثے میں ہلاک

سنجے گاندھی کی طرح دھیریندر برہمچاری بھی جون کے مہینے میں ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس وقت وہ اپنی زمین کا فضائی سروے کر رہے تھے جو انھوں نے کچھ عرصہ قبل اپنے آشرم کو بڑھانے کے لیے خریدی تھی۔

ان کے پائلٹ نے خراب موسم کی وجہ سے انھیں ٹیک آف نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن برہمچاری نے ان کی نصیحت پر کان نہیں دھرا اور بعد میں اترنے کی کوشش کے دوران ان کا طیارہ جھاڑیوں سے ٹکرا گیا۔

ان کی موت کے بعد نیویارک ٹائمز نے ان پر تین پیراگراف کا مضمون شائع کیا۔

دھیریندر برہمچاری پہلے شخص نہیں تھے جنھوں نے روحانیت کے زور پر اقتدار کا فائدہ اٹھایا، لیکن ان سے پہلے کسینے سیاسی منظر نامے پر اتنے لمبے عرصے تک غلبہ حاصل نہیں کیا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More