انڈیا کا سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کا مطالبہ، کیا یہ معاہدہ قائم رہے گا؟

بی بی سی اردو  |  Feb 11, 2023

Getty Images

وادی سندھ کے دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق جنوبی ایشیا کے سب سے قدیم اور طویل عرصے تک قائم رہنے والے بین الاقوامی سندھ طاس معاہدے کے مستقبل پر سنگین سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا نے اس معاہدے کی شرائط میں بڑی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے۔

انڈیا اور پاکستان نے 1960 میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) کہا جاتا ہے۔ ورلڈ بینک نے اس معاہدے پر دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کیا اور اس نے تیسرے فریق کے طور پر معاہدے پر دستخط بھی کر رکھے ہیں۔

اس معاہدے کا بنیادی مقصد وادی سندھ کے دریاؤں کے پانی کو دونوں ممالک کے درمیان منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنا تھا۔

دوطرفہ سطح پر قائم مستقل انڈس کمیشن میں انڈیا نے 25 جنوری کو اپنے کمشنر کے ذریعے ایک خط بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات پر دونوں ممالک اگلے 90 دنوں میں مذاکرات کریں۔

سندھ طاس معاہدے سے متعلق انڈیا کا موقف تھا کہ معاہدے پر عمل درآمد میں کسی تنازعے کی صورت میں اسے مذاکرات یا مرحلہ وار انداز کے ذریعے حل کرنا ہو گا۔ دوسری جانب پاکستان ثالثی عدالت کے سامنے کسی تیسرے ملک سے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے حق میں تھا۔

ہیگ میں قائم عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان کی جانب سے کی گئی اپیل کی سماعت 27 جنوری کو ہونی تھی۔ لیکن انڈیا نے اس سماعت کا بائیکاٹ کر دیا۔

پاکستان کے اٹارنی جنرل آفس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ طور پر تبدیلی کرنا چاہتا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

دریں اثنا، انڈیا کی وزارت خارجہ نے گذشتہ ہفتے اس تنازعے میں عالمی بینک کے کردار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’ہماری جانب سے اس معاہدے کی تشریح کی ذمہ داری کسی نے ورلڈ بینک کو نہیں دی۔‘ مجموعی طور پر اس معاہدے کی تشریح کا تنازع اس قدر پیچیدہ مرحلے تک پہنچ چکا ہے کہ بہت سے مبصرین اس کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

Getty Imagesسندھ طاس معاہدے پر تنازع کیا ہے؟

انڈس واٹر ٹریٹی کے مطابق اس وادی کے مشرق میں واقع تین دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا پانی انڈیا کے حصے میں ہے اور مغرب کے تین دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا پانی پاکستان کے حصے میں آتا ہے۔

لیکن معاہدے میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے حصے کے دریاؤں کو بعض مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے پیمانے پر پن بجلی کے منصوبے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جن میں یا تو پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے یا بہت کم ضرورت ہوتی ہے۔

ان تمام شرائط کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ چھ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے جاری تھا۔ لیکن انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حال ہی میں کشن گنگا اور رتلے نامی دو منصوبوں پر کافی تنازعہ ہوا ہے۔

اس میں انڈین حکومت نے 2018 میں بانڈی پورہ ضلع میں دریائے کشن گنگا (جو جہلم کی ایک معاون دریا ہے) پر بنائے گئے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ ضلع کشتواڑ میں دریائے چناب پر بننے والے رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی تعمیر کا کام جاری ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے جس طرح سے ان دونوں منصوبوں میں بجلی کی پیداوار کے لیے ڈیم یا آبی ذخائر بنائے ہیں اس سے دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں خلل آئے گا۔

پاکستان کا الزام ہے کہ چونکہ یہ دریا پاکستان کے 80 فیصد کسانوں کے کھیتوں کو پانی فراہم کرتے ہیں، اس لیے انڈیا کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو پراجیکٹ جیسے منصوبے بنا کر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

اس تنازعے کے حل کے لیے پاکستان نے پہلے عالمی بینک سے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد سال 2016 میں اس نے ہیگ میں قائم عالمی ثالثی عدالت سے درخواست کی تھی۔

Getty Imagesانڈیا معاہدے میں کیا تبدیلی چاہتا ہے؟

بنیادی طور پر کشن گنگا اور رتلے پراجیکٹوں پر تنازعے کو حل کرنے کے لیے دو متوازی عمل جاری تھے۔ پہلا یہ کہ انڈیا کی درخواست کے مطابق ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے ذریعے اور دوسرا، پاکستان کی درخواست کے مطابق عالمی ثالثی عدالت کے چیئرمین کی تقرری کے ذریعے۔

سال 2016 میں ورلڈ بینک نے ان دونوں متوازی عمل کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اس کا موقف یہ تھا کہ ان دونوں عملوں کے ذریعے متضاد فیصلہ آنے کی صورت میں معاہدے کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

لیکن رواں برس تین فروری کو ورلڈ بینک نے کہا کہ وہ دونوں عمل کو دوبارہ ایک ساتھ چلانے کے حق میں ہے۔

انڈیا نے ورلڈ بینک کی اس تجویز پر سخت اعتراض کیا ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے ورلڈ بینک پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے معلوم تھا کہ سندھ طاس معاہدہ دو ممالک کے درمیان ہے۔ انڈیا اسی پوزیشن پر واپس آنا چاہتا ہے جیسا کہ اصل معاہدے میں تھا، جس میں ایک مربوط طریقہ کار یا مرحلہ وار بات چیت کے ذریعے تنازعے کو حل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ دہلی نے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے۔‘

بھارت کی اس تجویز کا جواب دینے کے لیے پاکستان کے پاس تین ماہ کا وقت ہے۔ انڈین حکومتی ذرائع نے عندیہ دیا ہے کہ اس دوران پاکستان کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہ آنے کی صورت میں انڈیا معاہدے کو منسوخ کرنے پر بھی غور کرے گا۔

انڈیا کے تھنک ٹینک، آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی آٹھ فروری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مستقل انڈس کمیشن کے دائرہ کار میں ہائیڈرو ڈپلومیسی کے ذریعے پچھلی چند دہائیوں میں حاصل کی گئی کامیابی کو اب سیاست سے نقصان پہنچا ہے۔ یہ معاہدے ختم ہونے کے دہانے پر ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی زہریلی فضا پیدا کر دی گئی ہے۔

سیانشو موڈک اور نیلنجن گھوش، جنھوں نے یہ رپورٹ مرتب کی ہے، نے یہ بھی یاد دلایا ہے کہ ملک کے بہت سے ماہرین اب اس سہولت یا انڈس لیوریج کے استعمال کی وکالت کر رہے ہیں جو انڈیا کے پاس ایک اپ سٹریم ملک کے طور پر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سندھ طاس معاہدہ: انڈیا اور پاکستان کے درمیان وہ معاہدہ جس سے دونوں ملک چاہ کر بھی نہیں نکل سکتے

سندھ طاس معاہدہ: کیا انڈیا اپنا پانی پاکستان آنے سے روک سکتا ہے؟

پاکستان میں انڈیا سے آنے والا پانی نعمت یا زحمت؟

پاکستان میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر انڈیا کو اعتراض کیوں؟

Getty Imagesپاکستان کا ردعمل

پاکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ انڈیا جس طرح یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو تبدیل کرنا چاہتا ہے، یہ ایک گمراہ کن کوشش ہے۔

انڈیا کی جانب سے مستقل انڈس کمیشن کو خط بھیجنے کے بعد پاکستان کے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی کے دفتر سے ایک سخت بیان جاری کیا گیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’جس انداز میں انڈیا نے پاکستان کے اعتراض کے بعد اتنی تاخیر سے تنازعے کے حل کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں، اس سے انڈیا کی معاہدے پر عملدرآمد کی ہچکچاہٹ ظاہر ہوتی ہے۔‘

بیان میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ دونوں ممالک وادی سندھ کے دریاؤں پر تعمیر کیے جانے والے مختلف پن بجلی منصوبوں پر برسوں سے تنازعے کا شکار ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے مسئلے پر پاکستان کے تجزیہ نگار علی توقیر شیخ نے نو فروری کو ’دی ڈان‘ میگزین میں اس مسئلے پر ایک مضمون لکھا ہے۔

انھوں نے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ ’ایک نسبتاً کمزور ملک کے طور پر، پاکستان سمجھتا ہے کہ کسی بھی دو طرفہ مسئلے کو بین الاقوامی رنگ دینے سے مذاکرات کی میز پر اس کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی۔‘

ان کی رائے میں پاکستان کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے تنازعے کو عالمی ثالثی عدالت میں لے جانے کی اصل وجہ یہی ہے۔

علی توقیر شیخ نے اپنے مضمون میں لکھا کہ غیر جانبدار ماہر کی تقرری، ثالثی عدالت میں اپیل یا عالمی بینک کی جانب سے ’اون سیٹ بروکر‘ کے کردار کی کارکردگی جیسی خصوصیات کسی دوسرے خطے کے دریائی معاہدے میں موجود نہیں ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے اٹارنی جنرل آفس نے بھی کہا ہے کہ ’اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ہمیں لگتا ہے کہ یہ انڈیا کی ثالثی عدالت میں جاری سماعت سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔‘

علی توقیر شیخ کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’انڈیا اس معاہدے میں جس قسم کی تبدیلیاں لانا چاہتا ہے، اس سے نہ صرف سندھ بلکہ جنوبی ایشیا میں تمام بین الاقوامی آبی تعلقات خطرے میں پڑ جائیں گے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More