’خواتین کو حق ہے کہ وہ بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ خود کریں‘ پاکستانی ٹوئٹر پر بحث

بی بی سی اردو  |  Feb 07, 2023

Getty Images

ایک طرف تو پاکستان کے سوشل میڈیا پر ڈالر کی اونچی اڑان، گرتی ہوئی معیشت، سیاسی کھینچا تانی اور دیگر مسائل پر بحث ہو رہی ہے تو وہیں ایک اور اہم موضوع بھی ہے جس پر بحث کا بازار گرم ہے۔

معاملہ شروع ہوا ایک پاکستانی خاتون سدرہ عزیز کی ٹویٹس سے جنھوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ برسوں میں اُنھوں نے شعوری طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ بچے کبھی پیدا نہیں کریں گی۔ شادی شاید کر لیں مگر بچے بالکل نہیں۔

پاکستان جیسے معاشرے میں شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور ڈھونڈنے سے ہی کوئی ایسا شخص ملتا ہے جو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں کام نہ کرنا چاہتا ہو۔

یہاں تک کہ بچے، خاص طور پر لڑکے پیدا نہ ہونے پر خاندان کی طرف سے طعنے ملنے یا طلاق تک کی نوبت آ جانے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

اب ایسے میں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اسے بچے نہیں پیدا کرنے تو یہ بہت سے لوگوں کے لیے حیران کُن اور اجنبی تصور ہے کہ آخر بچوں کے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا ہے؟

تو اس ’حساس موضوع‘ پر ان کی ٹویٹ آنے کی دیر تھی کہ مشوروں، تنقید، دلائل اور ذاتی تجربات کی بھرمار ہو گئی۔

سدرہ عزیز نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ بچے ایک خوبصورت نعمت ہیں اور ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی، نہ صرف ان کی جسمانی بلکہ ذہنی اور جذباتی دیکھ بھال بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ میں سمجھتی ہوں کہ میں اس کے لیے نہ تیار ہوں نہ قابل ہوں، اور نہ ہی مجھے اس کے لیے کوئی جلدی ہے۔

سدرہ عزیز کی پہلی ٹویٹ فوراً ہی وائرل ہو گئی اور کچھ لوگ اُنھیں مشورے دیتے نظر آئے تو کچھ نے ان پر تنقید کی۔ کچھ نے ان کی حمایت کی تو کچھ نے کہا کہ وہ آخر تنہائی کے باعث بچے پیدا کر ہی لیں گی۔

شیخ نیازی نامی ایک صارف نے لکھا کہ وقت کے ساتھ انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں سو مجھے لگتا ہے کہ آپ کو بھی آنے والے برسوں میں یہ احساس ہو گا کہ آپ نے اس فیصلے پر یوٹرن لینا ہے۔

https://twitter.com/sheikh_AQ_niazi/status/1622463872635441152

تاہم سدرہ اپنی بات پر قائم رہیں اور جب ان سے ایک اور شخص نے سوال کیا کہ کیا وہ اپنی محبت کے لیے اپنا فیصلہ تبدیل کریں گی، تو اُنھوں نے کہا کہ نہیں۔

کچھ لوگ ان پر تنقید کرنے میں شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے اور اُنھیں ان کی عمر اور وضع قطع پر طعنے دینے لگے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ والدین جو اپنے بچوں کی بینائی ختم ہونے سے پہلے انھیں پوری دنیا دکھانا چاہتے ہیں

پانچ بیٹیوں کی پیدائش پر طلاق: ’اب اتنا پر اعتماد اور مضبوط محسوس کرتی ہوں کہ اپنی بیٹیوں کی پرورش خود کر سکتی ہوں‘

تاہم کئی لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے سدرہ کو یہ فیصلہ کرنے پر سراہا اور کہا کہ ہر کسی شخص بالخصوص خواتین کو حق ہے کہ وہ بچے پیدا کرنے یا نہ پیدا کرنے کا فیصلہ خود کریں۔

سید زین رضا نامی صارف نے لکھا کہ اگر ہمارا معاشرہ لوگوں کو بچے پیدا کرنے کے لیے مجبور نہ کرتا تو ان کے خیال میں بہت سے لوگ یہ فیصلہ کر لیتے۔ کئی خوش باش بچے ہوتے کیونکہ ان کے والدین کو انھیں پیدا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا گیا تھا بلکہ اُنھوں نے اپنی مرضی سے بچے پیدا کیے۔

https://twitter.com/SydZainRaza/status/1622340297597362176

سیدہ شہربانو نامی ایک صارف نے لکھا کہ بچے پیدا کرنا شادی کے بعد واحد مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ میں بھی یہی کر رہی ہوں اور لوگ اسے پسند نہیں کرتے اور مجھے خود غرض کہتے ہیں مگر یہ میرا جسم ہے اور میرا فیصلہ ہے کہ مجھے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ کوئی سوالات نہ پوچھے جائیں۔

https://twitter.com/syedashehrbano2/status/1622740767465963521

ثنا ارباب نے لکھا کہ بچے ایک بہت بڑی اور مہنگی ذمہ داری ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کا ساتھ دینے کے لیے لوگ موجود ہوں۔

اُنھوں نے لکھا کہ انسان اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں بچوں کے متعلق مختلف خیالات رکھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ بچے پیدا کس کے ساتھ کر رہے ہیں۔

https://twitter.com/SanaArbab15/status/1622788274069684224

فطین لیاقت نے سدرہ کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ظاہر ہے کہ یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے مگر کوئی کیسے بچے نہیں چاہ سکتا؟

اُنھوں نے لکھا کہ آج کل ویسے ہی خوش رہنا اتنا مشکل ہے اور بچے ہونا ایک بہت خوبصورت چیز ہے، یہ روزانہ اٹھنے کا تحرک فراہم کرتی ہے۔

https://twitter.com/fateenrana/status/1622602733004943363

احسن زوار نے لکھا کہ مجھے معلوم ہے کہ انھیں ٹرول کیا جائے گا۔ میں ایک والد ہوں اور اپنے بچوں سے بے حد محبت کرتا ہوں مگر بچے پیدا کرنا ہمارا اپنا فیصلہ تھا۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، جسمانی اور ذہنی ضروریات ہوتی ہیں اور اگر کوئی بچے نہ پیدا کرنا چاہے تو میں اس کی وجہ سمجھ سکتا ہوں۔

https://twitter.com/ahsanzawar/status/1622510324900564992

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More