Getty Images
پاکستان اور افغانستان کے مابین ’تاریخی‘ سرحدی کشیدگی کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ اس معاہدے کا واحد مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے اور یہ معاہدہ سرحدی دراندازی نہ ہونے سے مشروط ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے کے تحت دیرپا امن اور استحکام کے لیے فریقین ایک لائحہ عمل بنائیں گے جس کے ذریعے دونوں ملکوں میں سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دونوں ممالک کے وزرائے دفاع کے مابین ہونے والے اس معاہدے کے بعد کئی روز سے بند سرحد اب جزوی طور پر کھل گئی ہے اور تجارتی سرگرمیاں بحال ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان کے افغانستان سے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے ہیں دونوں ممالک کے مابین کبھی طویل سرحد پر باڑ لگانے پر مسئلہ ہوا تو کبھی سرحد پر آمدورفت پر تنازع رہا۔
چند سال قبل تک پاکستان کا موقف تھا کہ پرامن افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے لیکن اب جہاں افغانستانقدرے پر امن ہے لیکن دہشت گردی نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرنے کے سبب، پاکستان نے افغانستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنایا، افغان مصنوعات کے لیے تجارتی راہدری کو بند کر دیا اور پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے یہ اقدامات افغانستان کو تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں؟
مبصرین اور تجزیہ کاروں کے خیال میں دہشت گرد حملوں میں اضافے پر پاکستان کا ردعمل بہت واضح اور دوٹوک ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ افغان طالبان کوئی باقاعدہ حکومت تو ہیں نہیں اس لیے داعش اور اندرونی اختلاف کے خدشات کے سبب وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں بھی کبھی لڑائی تو کبھی جنگ بندی جیسی صورتحال ہی برقرار رہے گی۔
Getty Imagesپاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہےپاکستان کا دباؤ، افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے؟
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان سے وابستہ شدت پسند سرحد پار کر کے پاکستان آتے ہیں اور یہاں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
ایک تھینک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے تیس جون تک پاکستان میں 502 دہشت گرد حملے ہوئے ہیں جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 284 اہلکار ہلاک اور 267 عام شہری مارے گئے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا اور کابل میں برسر اقتدار طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے۔
پاکستان کی گل بہادر کے ٹھکانوں پر حملوں کی تصدیق: ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور عسکریت پسند جو کبھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہ بنابینظیر بھٹو کی خواہش اور پاکستانی ٹرک: آئی ایس آئی اور افغان طالبان کے تعلق کی ابتدا کیسے ہوئی؟’پہلے جھڑپیں ہوتی تھیں، اب باقاعدہ جنگ جیسی صورتحال ہے‘: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کیا رُخ اختیار کر سکتا ہے؟’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟
شدت پسندی پر رپورٹ کرنے والے صحافی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم خراسان ڈائری کے مدیر افتخار فردوس کا کہنا ہے کہ اگرچہ نان سٹیٹ ایکٹر پاکستان اور افغانستان کو جنگ کے دہانے پر لے آئے ہیں لیکن افغان طالبان ان شدت پسند گروہ کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’افغانستان میں طالبان اپنے آپ کو اسلامی امارات کہتے ہیں اور امارات کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی گروپس اس امارات کے ساتھ ہوتے ہیں وہ امیر کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ اس لیے کسی ایک گروپ کے خلاف کارروائی امارات کو توڑنے کے مترادف ہے۔‘
افتخار فردوس کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کی کوئی بھی کارروائی افغان طالبان کے گورننس کے ماڈل کے لیے خطرہ ہے اس لیے وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔‘
ماضی میں بھی افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ دیگر کئی اور شدت پسند گروہ بھی سرگرم رہے ہیں جن میں شدت پسند تنظیم داعش، القاعدہ اور ایسٹ ترکمانستان موومنٹ وغیرہ شامل ہیں۔
افغانستان میں افغان طالبان نے کسی حد تک ایسٹ ترکمانستان موومنٹ کو تو کنٹرول کر لیا لیکن داعش اب بھی افغان طالبان کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور مخالف ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں افغان طالبان کو خدشہ ہے کہ اگر انھوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کی تو ٹی ٹی پی کے جنگجو داعش میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
انسٹیٹیوٹ سٹرٹیجک سڈیز اسلام آباد سے وابستہ تجزیہ کار آمینہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی افغان طالبان سے واحد توقع یہی تھی کہ وہ پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی روکیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا افغان طالبان ٹی ٹی پی پر اثرروسوخ نہیں رکھتے؟ آمینہ خان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے اور افغان طالبان کا ٹی ٹی پی پر اچھا خاصا اثرروسوخ ہے اور ماضی میں ان ہی کے تعاون سے پاکستان حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات اور سیز فائر ہوئی تھی۔
لیکن پھر اب کیا مسئلہ ہے؟
آمینہ خان کا کہنا ہے کہ ’یہ صورتحال افغان طالبان کے لیے بھی مشکل ہے کیونکہ اگر انھوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف زیادہ کارروائی کی تو وہ داعش الخراسان کو جوائن کر سکتے ہیں۔ جو افغان طالبان کے لیے بڑا خطرہ ہے۔‘
آمینہ کے بقول پاکستان اور افغانستان کو ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہو گا کیونکہ لڑائی یا جارہانہ حکمتِ عملی مسائل کو حل نہیں کر سکتی۔
بعض مبصرین کے خیال میں افغانستان کے معاملے پر پاکستانی پالیسی میں تبدیلی بھی مسائل میں اضافے کی وجہ بنی۔
نیویارک میں مقیم تجزیہ کار جہانگیر خٹک کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کے بارے میں پاکستان کی پالیسی بدل گئی اور بیانیہ بدلنے سے بد اعتمادی بڑھی۔
جہانگیر خٹک کے مطابق ’پہلے پاکستان افغان طالبان کو تسلیم کروانے کے لیے دنیا بھر میں لابنگ کر رہا تھا پھر اب پاکستان خود یہ کہتا ہے کہ طالبان کی حکومت افغان عوام کی نمائندہ حکومت نہیں۔ اس صورتحال میں مسائل بڑھتے ہیں حل نہیں ہوتے۔‘
Getty Imagesپاکستان مطالبات منوانے کے لیے مزید کیا کر سکتا ہے؟
پاکستان کی جانب سے اس وقت افغانستان کی حکومت پر شدید دباؤڈالا جا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں اور حالیہ مذاکرات میں پاکستان کا واحد نقطہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی ہی تھا لیکن اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی تو پاکستان کیا اقدامات اٹھا سکتا ہے؟
مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق ’تاریخی‘ کشیدگی کے بعد تو بس عسکری لحاظ سے یہی آپشن بچتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندر کارروائیاں کرے اور ٹی ٹی پی کی قیادت ختم کر دے لیکن ایسا کرنا سود مند نہیں۔
افتخار فرودس کے مطابق ’پاکستان کائنٹیک کے علاوہ کئی اور نان کائینٹک ایکشن لیے جا سکتے ہیں جیسے طالبان مخالف گروہوں کو سپورٹ کرنا تاکہ افغان طالبان کی حکومت کو کمزور کیا جائے لیکن میرا نہیں خیال کہ اس سے پاکستان کا دہشت گردی کا مسئلہ ہو گا۔‘
اُن کے بقول ایسا کوئی بھی اقدام پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
تجزیہ کار آمینہ خان کا کہنا ہے کہ خطے کے اہم ملک کے طور پر دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے خدشات بہت واضح ہیں اور افغان طالبان ٹی ٹی پی کے معاملے پر پاکستان کے خدشات کو نظر انداز کرتے رہیں گے تو پاکستان دنیا کو باور کروا سکتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
امریکہ اور افغان طالبان کے مابین دوحہ امن معاہدے کے تحت افغانستان پابند ہے کہ اپنی زمین کو دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
تجزیہ کار جہانگیر خٹک کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج کے بقول خیبر پختونخوا میں ہزاروں انٹیلیجنس بیس آپریشن کیے گئے لیکن پھر بھی واقعات کم نہیں ہو رہے ہیں۔ اُن کے بقول پاکستان کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ کیونکہ ملک میں دہشت گردی کم نہیں ہو رہی ہے۔
Getty Imagesپاکستان اور افغانستان کے مابین 2600 کلو میٹر طویل سرحد ہے جس پر پاکستان نے باڑ لگائی ہےتنگ گلی سے نکلنے کا راستہ کیا؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے مابین کشیدگی دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہے۔
افغانستان کی سرحد سے متصل صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پاکستان تیل وگیس اور معدنیات میں سرمایہ کاری بڑھانا چاہتا ہے اس لیے سرحد پر امن ہونا بہت ضروری ہے۔
تجزیہ کار آمینہ خان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کو بھی یہ انتخاب کرنا ہو گا کہ انھیں دنیا کے ساتھ چلنا ہے یاٹی ٹی پی کو ساتھ۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’اگر افغان طالبان یہ چاہتے ہیں کہ دنیا انھیں تسلیم کرے تو انھیں انسدادِ دہشت گردی کے لیے سنجیدہ کردار ادا کرنا ہو گا جبکہ پاکستان کو جارحیت کے بجائے بات چیت سے مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔‘
تجزیہ کاروں کے خیال میںپاکستان کو اپنی افغان پالیسی پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے۔
جہانگیر خٹک کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی افغان پالیسی میں پارلیمینٹ یا سول حکومت کا کوئی خاص کردار دکھائی نہیں دیتا اور بظاہر لگتا ہے کہ چند لوگ مل کر فیصلے کرتے اور جلد بدل لیتے ہیں۔‘
انھوں کہا کہ ایران بھی پاکستان کی طرح غیر قانونی افغان شہریوں کو واپس بھیج رہا ہے لیکن ان کی پالیسی مختلف ہے۔ ’وہ قانونی طور پر ایران آنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جیسے افغانستان سے آنے والے مزدورں کے لیے دو لاکھ ویزے دینے کا اعلان کیا گیا۔‘
تجزیہ کار افتخار فردوس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے مسئلے میں کوئی خاصی پیش رفت کی امید نہیں اور معاملات بظاہر ایسے ہی چلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
افغان وزیرِ دفاع کا ’ڈیورنڈ لائن‘ سے متعلق بیان اور دوحہ جنگ بندی معاہدے سے جڑی امیدیں اور خدشاتپاکستان کی گل بہادر کے ٹھکانوں پر حملوں کی تصدیق: ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور عسکریت پسند جو کبھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہ بنا’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟’پہلے جھڑپیں ہوتی تھیں، اب باقاعدہ جنگ جیسی صورتحال ہے‘: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کیا رُخ اختیار کر سکتا ہے؟بینظیر بھٹو کی خواہش اور پاکستانی ٹرک: آئی ایس آئی اور افغان طالبان کے تعلق کی ابتدا کیسے ہوئی؟