جدید طرز زندگی، پرفضا مقام، بڑی بڑی سڑکیں، پانی بجلی کا نظام، سینما اور پارکس، یہ ہے بحریہ ٹاؤن کا خواب لیکن رکو زرا صبر کرو کیونکہ یہ آدھا سچ ہے اور پوری حقیقت آج ہم آپ کو بتائیں گے اوربحریہ ٹاؤن کی حقیقت اور سیکڑوں الاٹیز سے فراڈ کے علاوہ نئے منصوبے میں انوکھے فراڈ سے بھی پردہ اٹھائیں گے۔
بحریہ ٹاؤن کا نام سنتے ہی لوگوں کے دلوں میں اس خوبصورت اور دلفریب جگہ پر گھر بنانے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے ۔ بحریہ ٹاؤن نے اپنے گھر کا خواب دیکھنے والوں کو جدید طرز زندگی کا سہانہ خواب دکھا کر ایسا گھمایا کہ لوگ آج بھی کبھی بحریہ ٹاؤن کے دفاتر تو کبھی عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن یہ چکر ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے اور اب بحریہ ٹاؤن نے ایک نیا چکر چلا کر لوگوں کو مزید چکر دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔
نئے فراڈ سے متعلق بات کرنے سےپہلے ہم آپ کو بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے کچھ بتاتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن ایک جدید رہائشی منصوبہ ہے جو کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھی قائم ہوچکا ہے۔بحریہ ٹاؤن میں جدید زندگی کی تمام تر آسائشیں اور سہولیات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہ منصوبہ ہمیشہ تنازعات کی زد میں رہا ہے۔
بحریہ ٹاؤن میں اپنے گھر کے خواب کو پورا کرنے کیلئے پوری زندگی کی جمع پونجی لٹانے والے درجنوں نہیں بلکہ ہزاروں متاثرین الاٹمنٹ کیلئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ بحریہ ٹاؤن میں ہزاروں لوگ رہائش اختیار کرچکے ہیں لیکن پوری حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں لوگ آج بھی الاٹمنٹ کیلئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹارہے ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ زمین کے ٹکڑے کیلئے اپنی پوری زندگی کی کمائی لٹانے والے الاٹیز کو گھر ملنا تو دور کی بات ہے ان کی سننے والا بھی کوئی نہیں ہے۔بحریہ ٹاؤن پر زمینوں کی غیر قانونی توسیع اورپانی کے وسائل پر قبضے کے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں لیکن بحریہ ٹاؤن کے کرتا دھرتاؤں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض جہاں فائلوں کو پہیے لگاکر چلانے کا ہنر جانتے ہیں وہیں انہیں طاقت کے اصلی مرکز و محور کا بھی معلوم ہے اسی لئے ملک ریاض اس طاقت کے مرکز سے سبکدوش ہونے والے سوماؤں کو اپنے ساتھ ملکر لیتے ہیں۔
ان سورماؤں کی مدد سے بحریہ ٹاؤن سے حق لینے کیلئے آواز اٹھانے والوں کو اچھا سبق سکھایا جاتا ہے اور یہ پہلوان غریب اور بے بس متاثرین کو ایسا پٹخا دیتے ہیں کہ میڈیا تک ان متاثرین کی آواز پہنچنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔عدالتوں میں چلنے والے کیسز پر ہی اگر نظر ڈالیں تو بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں کیلئے قبضہ کی گئی زمینوں کا زیادہ حصہ متنازعہ ہے۔
سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے غریب لوگوں کو اپنے گھر کا خواب دکھا کر فائلیں تو بیچ دیں لیکن جب الاٹمنٹ کا وقت آتا ہے تو انہیں دیتے ہیں تو صرف تاریخ پر تاریخ لیکن زمین نہیں ملتی ۔اب بحریہ ٹاؤن کے نئے فراڈ کے بارے میں جاننے سے پہلے آپ کو ایک مثال دیتے ہیں کہ جیسے ملک میں کہیں بمبئی ہوٹل تو کبھی دہلی کے کھانے مشہور ہیں تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ان کھانوں کا تعلق بھارت سے بلکہ لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے الگ طرح کے نام رکھے جاتے ہیں۔
اب بحریہ ٹاؤن نے کراچی 2 نامی منصوبہ شروع کیا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے مطابق اس منصوبے کیلئے 4 ہزار 756 ایکڑ زمین بھی حاصل کرلی گئی ہے۔ آگے سنیں ۔۔ یہ منصوبہ پہلے منصوبے سے ایک تقریباً 35 کلو میٹر دور ہے۔ اب جن لوگوں نے کراچی میں پہلا بحریہ ٹاؤن نہیں دیکھا تو انہیں بتاتے چلیں کہ بحریہ ٹاؤن مین سپر ہائی وے پر ہے۔ یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کراچی سے تقریباً باہر ہی ہے اور اس سے بھی 35 کلومیٹر دور کہاں ہوگا؟ تو جناب بحریہ ٹاؤن کے اس منصوبے کا صرف نام ہی کراچی ٹو ہے ورنہ یہ منصوبہ کراچی سے بہت دور ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے کراچی کے نام پر فراڈ کا معاملہ عدالت بھی پہنچ چکا ہے، سندھ ہائیکورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے فراڈ کا علم ہونے پر اسٹے آرڈر جاری کردیا ہے۔ اب انتظامیہ بحریہ ٹاؤن 2 کے کیس کے فیصلے تک کسی قسم کی تعمیرات، پلاٹوں کی بکنگ سمیت کوئی کام نہیں کرسکتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے کراچی کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے جامشورو میں منصوبہ بنایا ہے، اب جیسے ہم نے آپ کو بتایا کہ بمبئی ہوٹل سے کھانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے بھارت سے کھانا کھایا ہے۔ اسی طرح کراچی ٹو نام رکھنے سے جامشورو کراچی نہیں آسکتا۔
بحریہ ٹاؤن 2 کراچی منصوبہ سندھ کے ضلع جامشورو کی ریونیو کی حدود میں ہے لیکن سرمایہ کاروں کو بے وقوف بنانے کے لیے منصوبے کا نام بحریہ ٹاؤن 2 کراچی رکھ دیا تاکہ پلاٹ زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کیے جاسکیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کیر تھر نیشنل پارک کی سرکاری اراضی پر 75 فیصد پراجیکٹ شروع کر رہی ہے۔عدالتی مداخلت کے بعد یہ منصوبہ کس وقت بھی ملتوی کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے پیسے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔