آصف زرداری، نوازشریف، ملک ریاض، میاں منشا اور دیگر لوگ اربوں ڈالر کے مالک ہیں، پاکستان کے پاس نظام چلانے کیلئے صرف 6 ہفتوں کے پیسے ہیں، 6 ہفتوں کے بعد کھانے کو آٹا ہوگا نہ تیل بجلی ہوگی نہ فیکٹریوں کا پہیہ چلے گا۔ ملک دیوالیہ ہونے پر کیا کیا مسائل ہونگے اور کون کون سے خاندان پاکستان کو مشکل سے نکال سکتے ہیں۔
پاکستان اس وقت تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی وجہ کیا ہے اور کون کون ملک کو ڈبونے کا ذمہ دار ہے؟، کون کون سے سیاستدان اور شخصیات پاکستان کی بڑی دولت پر قابض ہیں۔ نام جان کرآپ حیران رہ جائینگے۔
عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان کے مسائل کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہے، پی ڈی ایم حکومت ملک میں مہنگائی کے جن کو آزاد چھوڑ کر بھی پیسے جمع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 5 اعشاریہ 82 بلین ڈالر ہیں لیکن یہ پیسے صرف دکھانے کیلئے ہیں، خرچ کرنے کی اجازت نہیں۔ 6 ہفتوں کے بعد اگر ہمارے پاس پیسے نہ آئے اور خدا نخواستہ ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو کیا کیا مشکلات آئیں گی آیئے آپ کو بتاتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو کچھ چیزیں بتاتا ضروری ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب سے فوری طور پر 3 ارب ڈالر مزید قرض کی درخواست کی ہے۔ اب اکثر لوگ سوچتے ہونگے کہ حکومت کے قرضوںسے مہنگائی تو ہوگی لیکن اس کے علاوہ عوام کو موجودہ حالات سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شائد لوگوں کی حالات کی سنگینی کا اندازا نہیں ۔ آپ لوگوں کو شائد یہ لگتا ہے کہ آپ کے پاس پیسے ہیں تو آپ کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟، آپ کو بتاتے چلیں کہ اگر خدا نخواستہ ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو ہمارے پاس ایک ہزار روپیہ ہو یا ایک کروڑ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
اس کیلئے آپ کو زمبابوے اور سری لنکا کی مثال دیتے ہیں کہ زمبابوے دیوالیہ ہوا تو زمبابوین ڈالر کی حالت یہ تھی کہ 100 بلین ڈالر۔ 100 بلین ڈالر کا نوٹ بھی ایک کلو سیب کیلئے ناکافی تھی۔ آپ کے پاس 100 بلین روپے ہوں تو آپ کے ٹھاٹھ دیکھنے والے ہونگے۔ایسا ہی منظر چند ماہ پہلے سری لنکا میں بھی دیکھنے میں آیا کہ جب لوگ پیسے لے کر آٹا، تیل اور دوسروں چیزوں کیلئے مارے مارے پھرتے رہے لیکن ہاتھ کچھ نہیں آیا۔
اب آپ کوبتاتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے، مسئلہ سری لنکن کرنسی یا زمبابوے کے ڈالر کا نہیں اور نہ ہی آپ کے پاس موجود لاکھوں روپے کا ہے بلکہ یہاں مسئلہ امریکی ڈالر کا ہے۔پوری دنیا کا نظام امریکی ڈالر سے چلتا ہے۔
چند ماہ پہلے سری لنکا کے ساتھ یہ ہوا کہ ان کے پاس ڈالر ختم ہوگئے تھے اور پیٹرول کا جہاز سری لنکا آیا لیکن سری لنکا کے پاس امریکی ڈالر نہیں تھے اس لئے وہ جہاز واپس چلا گیا اور سری لنکا میں فیکٹریاں بند ہوگئیں، گھروں میں اندھیرے چھاگئے۔
کاروبار بند ہونے کی وجہ سے سری لنکا میں بھوک اور بدحالی کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس کے اثرات آئندہ کئی سالوں تک دیکھنے کو ملیں گے۔ اب اگر پاکستان کے دولت مند خاندانوں کی بات کریں تو ہم سعودیہ سے 3 ارب ڈالر بھیک مانگ رہے ہیں لیکن اپنے سرکردہ لوگوں کے پاس موجود پیسے کا استعمال نہیں کررہے۔
کون کون سے امیر خاندان پاکستان کو مشکل سے نکال سکتے ہیں۔ یہ جاننے سے پہلے یہ جان لیں کہ اگر خدا نخواستہ ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو ہمیں کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں۔ ہم نے مطالعہ پاکستان میں پڑھا تھا کہ پاکستان ایک زرعی ملک اور گیس کے بھی وسیع ذخائر ہیں۔۔ لیکن اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہم نے زرعی زمینوں پر بڑی بڑی سوسائٹیاں بنادی ہیں۔
ہم کھانے کیلئے گندم دوسرے ممالک سے منگواتے ہیں، ہمارے ملک کا نظام پوری طرح سے امپورٹ پر چل رہا ہے۔ ہماری سب سے بڑی امپورٹ تیل ہے۔ جس گندم کا آٹا ہم کھاتے ہیں وہ گندم بھی امپورٹ ہوتی ہے۔ معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے بجلی جس تیل سے بنتی ہے وہ بھی امپورٹ ہوتا ہے۔ چولہا اور فیکٹریوں میں مشینیں چلانے کیلئے جو ایل این جی گیس استعمال کرتے ہیں وہ بھی امپورٹڈ ہے۔
صبح شام ائے کی چسکیوں کے مزے بھی امپورٹ کی وجہ سے ہی ہیں یہی نہیں بلکہ کئی خوردنی اشیاء، کیمیکلز، مشینری، خوردنی تیل، ادویات، موبائل فونز، سونا، ملبوسات، گاڑیاں اور اسپیئر پارٹس، آئرن اور اسٹیل بھی ہم بیرون ممالک سے منگواتے ہیں۔
اب یہاں آپ کو آسان لفظوں میں بتائیں تو آپ پیسوں کا کنٹینر بھر کر چاند پر چلے جائیں لیکن وہاں نہ کھانے ہو نہ پہننے کو ملے تو آپ کے پیسے کس کام کے؟؟؟ تو جناب اگر پاکستان دیوالیہ ہوتا ہے تو ہمارے پاس آٹا ہوگا نہ تیل اور کوئی امپورٹ نہیں ہوگی جس سے ملک کا نظام بیٹھ جائے گا۔ آپ نوٹوں کی بوریاں بھر کر بھی لے جائیں تب بھی مارکیٹ میں چیز ہوگی ہی نہیں تو آپ کو کہاں سے ملے گی؟۔
اسلئے پاکستان کو ڈالرز کی ضرورت ہے اور حکومت نے ایک بار پھر کٹوارا اٹھالیا ہے اور سعودیہ سے 3 ارب ڈالر کی بھیک مانگی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام مملکت چلانے کیلئے اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 5 اعشاریہ 82 بلین ڈالر ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس 5 اعشاریہ 88 بلین ڈالر ہیں اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ 2022/23 کے باقی ماندہ مالی سال کے 6 ماہ میں 26 بلین ڈالر ہمیں مختلف ادائیگیاں کرنی ہیں۔
پاکستان کے نامور سیاستدان اور شخصیات جن کے پاس اربوں ڈالر ہیں ان سے کوئی سوال نہیں ہورہا۔ پاکستان کے کون کون سے لوگوں کے پاس کتنا پیسہ ہے، جان کر آپ حیران رہ جائینگے تو آپ کو بتاتے ہیں کہ کون کون سی شخصیات کتنے ڈالرز کی مالک ہیں۔
ہاشو گروپ کے بانی و چیئرمین صدر الدین ہاشوانی 3 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کے مالک ہیں، نشاط گروپ کے مالک میاں محمد منشاء کے پاس 3 اعشاریہ 7 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض بھی کسی سے کم نہیں اور ان کے پاس ڈیڑھ ارب ڈالر ہیں۔ سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری ایک اعشاریہ 8 ارب ڈالر کے مالک ہیں ۔3 بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھنے والے نوازشریف ایک اشاریہ سات پانچ ارب ڈالر کے مالک ہیں۔
یہ وہ پیسے ہیں جو سامنے ہیں لیکن ان شخصیات اور پاکستان کے امیرترین لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کتنا پیسہ ہے اس کا کوئی حساب نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح پاکستان کے نظام پر قابض بھی ہیں تو اگر یہ لوگ چاہیں تو مشکل وقت میں اپنے اثاثوں کی مدد سے ملک کو مشکل سے نکال سکتے ہیں۔ حکومت کٹورا لے کر در در بھٹکنے کے بجائے اگر ان رئیس لوگوں کے اثاثوں کو استعمال میں لائے تو شائد کچھ وقت کیلئے پاکستان پر چھائے مایوسیوں کے بادل چھٹ سکتے ہیں۔