پاکستان ان دنوں شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے، پاکستان کو نظام چلانے کے ساتھ ساتھ قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے بھی امریکی ڈالرز کی ضرورت ہے لیکن حکومتی خزانے میں اس وقت صرف چند ہفتوں کے پیسے باقی ہیں۔ پاکستان قرضوں کے جال میں کب پھنسا اور اس وقت کتنے قرضوں میں دبا ہوا ہے۔ آیئے آپ کو بتاتے ہیں۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم 126 بلین ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے اور پاکستان کو 2059ء تک 95 بلین ڈالر سے زائد اصل رقم اور سود کی مد میں ادا کرنی ہے۔
حکومتی قرض سے مراد کسی ملک یا ریاست پر واجب الادا قرضہ ہوتا ہے۔ حکومتی قرضوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا کوئی اور ہوتا ہے اور قرض بھرنے والا کوئی اور ہوتا ہے۔
قرض لینے والے سیاسی لیڈر ہوتے ہیں جبکہ حکومت کا یہ سارا قرضہ آخر کار اس ملک کے ٹیکس دھندگان کو بھرنا پڑتا ہے جس میں انفلیشن ٹیکس بھی شامل ہے۔ حکومتی قرضوں نے اُن بچوں کو بھی مقروض بنا دیا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔
پاکستان میں قرضوں کی شروعات پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور سے ہوئی اور اس وقت اخبار میں ایک کارٹون شائع ہوا جس میں لیاقت علی خان کو بیساکھیوں کے سہارے چلتے دکھایا گیا اور کیپشن میں دو امریکی بات کررہے ہیں کہ پاکستان نے امریکی امداد لے لی ہے یہ اب کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا۔
آج پاکستان ان قرضوں کی وجہ سے پاکستان اس وقت شدید مشکل ترین حالات سے گزررہا ہےاور ملک کے کئی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔