سردی نے ایک بار پھر ماضی کی یادیں تازہ کردیں، بچپن میں پتیلے میں گرم کئے پانی سے ماں کے ہاتھوں سے نہانا اور خشکی سے بچنے کیلئے ویسلین کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کا حصہ بن گیا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سردی کی آمد کے ساتھ تبت کی ویسلین اور سردی میں گرم پانی سے نہانے کی یادوں کو تازہ کیا جارہا ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ گیزر کی سہولت تو نہیں تھی اسلئے امی پانچ کلو والے گھی کے ڈبے میں پانی گرم کر کے ہم بہن بھائیوں کا منہ ہاتھ دھلاتی، سر پہ سرسوں کے تیل کی مالش کرتی اور خشک زدہ جلد پر تبت کی نارنجی والی ویسلین لگاتی اور رنگ برنگی اون سے خود سے بنے ہوئے سویٹر پہنا دیتی کہ دنیا کی نظر میں بھلے ہم جوکر تھے مگر اس ماں کے سوہنے تھے۔
مائیں بہت سادہ ہوتی ہیں، انھیں اپنے کالے کلوٹے، معمولی شکل و صورت والے بچے بھی دلیپ کمار لگتے ہیں۔ اب موسم کی سختیاں دیکھو سامان خریدنے،میں ہزاروں خرچ ہو جاتے مگر وہ بچپن کی نارنجی تبت ویسلین کا مزہ نہیں آ سکتا۔