برطانیہ سے منتوں مرادوں کے بعد پاکستان آنے والے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھ کر 15 دن کیلئے قوم پر ایک بہت بڑا احسان کردیا ہے۔
پاکستان میں اس وقت پیٹرول 224 روپے فی لیٹر پر موجود ہے اور قوم قیمتیں برقرار رکھنے پر ہی خوش ہے کیونکہ حکومت کمی کا شوشہ چھوڑ کر قیمتوں میں اضافہ کردیتی ہے۔
پاکستان ایک غریب اور معاشی بدحالی کاشکار ملک ہے اور یہاں عوام کو امپورٹڈ پیٹرول سستے داموں کسی صورت فراہم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس پیٹرول کیلئے حکومت بھاری زرمبادلہ خرچ کرتی ہے لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ عوام کو چائے کم پینے اور روٹی آدھی کھانے کا مشورہ دینے والے امراء کی عیاشی کا سامان کہاں سے آتا ہے۔
بڑی بڑی گاڑیوں میں رعونت سے پھرنے والے سرکاری افسران کوتنخواہ آپ کے اور ہمارے خون پسینے کی کمائی سے ملتی ہے۔ عوام آٹا، چینی، گھی، تیل، نمک، چاول، گوشت ، دودھ ، پیٹرول اور ہر چیز پر بھاری ٹیکس دیتے ہیں۔
مہذب دنیا میں ٹیکس لے کر بدلے میں عوام کو سہولیات اور مراعات دی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں پہلی بات کہ امراء ٹیکس دیتے ہی نہیں، غریب عوام اور چھوٹے کاروباری افراد کی جیبیں کاٹ کر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور وہ ٹیکس واپس عوام پر خرچ ہونے کے بجائے شاہی افسران کی عیاشی پر خرچ ہوتا ہے۔
پاکستان میں سرکاری ملازمت کرنے والے شاہی ملازمین کیلئے مشہور ہے کہ سرکاری افسران کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کیلئے رشوت لیتے ہیں، ایسا نہیں کہ سرکاری ملازمین کوئی غریب اور مفلس ہوتے ہیں بلکہ پاکستان میں سرکاری ملازمت کا مطلب لاکھوں کروڑوں میں کھیلنا ہے۔
پاکستان میں ایک عام سرکاری چپڑاسی بھی رشوت سے لاکھوں روپے کماتا ہے اور ارکان اسمبلی، ججوں اور سرکاری افسران کی تنخواہ 10 لاکھ سے زائد ہونے کے علاوہ سیکڑوں لیٹر پیٹرول، نوکر چاکر، گاڑیاں، بنگلے اور ہزاروں یونٹ بجلی مفت ملتی ہے۔
پاکستان کا نظام انصاف دنیا میں نچلی ترین سطح پر ہے لیکن ہمارے ججوں کا پروٹوکول کسی راجہ مہاراجہ سے کم نہیں اور تنخواہیں اور مراعات اتنی ہیں کہ کسی بادشاہی نظام کے شاہی سپوتوں کا گمان ہوتا ہے۔
ہمارے حکمران عوام کو چائے کا کپ کم کرنے اور روٹی آدھی کھانے کا مشورہ تو دیتے ہیں لیکن وہ شائد یہ بھول جاتے ہیں کہ جن لوگوں کو وہ اخراجات کم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں انہی کی خریداری کی وجہ سے ملنے والے ٹیکس سے ان حکمرانوں کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت جہازی سائز کی کابینہ اقتدار پر براجمان ہے جن کی تنخواہ اور مراعات کی بھر پائی پاکستان کے غریب عوام کو کرنی پڑتی ہے۔
پاکستان کے شاہی افسران کی تنخواہ اور مراعات اقوام متحدہ کے افسران سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں کوئی بھی محکمہ کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ کسی بھی سرکاری دفتر میں چلے جائیں بغیر رشوت کے کام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عوام جو پیٹرول خریدتے ہیں اس پر 10، 20 نہیں بلکہ 70، 80 روپے کے قریب ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور عالمی اداروں سے اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کیلئے لئے جانے والے قرضوں کی ادائیگی کیلئے غریب عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے۔
حکومت اپنے اور سرکاری افسران و ملازمین کی تنخواہ، مراعات اور ٹیکس میں کمی کرکے غریب عوام کو جینے کا حق دے سکتی ہے لیکن اس سے شاہی حکمرانوں اور شاہی افسران کے اپنے خرچے کیسے پورے ہونگے؟۔