پاکستان میں آج شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس میں خواتین کام نہ کر رہی ہوں اور اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین کو گھر اور دفتر دونوں جگہ کام کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود محنت اور لگن سے کام کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کے بجائے انہیں ہراساں کرنا اور حوصلہ شکنی کرنا عام ہوچکا ہے۔
سوشل میڈیا پر ڈاکٹر زارون آفریدی نامی ایک صارف نے ایک پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے بتایا کہ "مجھے ایک ایسی خاتون کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا جو کہ آن لائن ٹیکسی چلاتی تھی۔ میں بہت شش و پنج میں تھا۔
بہرحال وہ مجھے لینے کے لئے پہنچی تو میں نے اس سے پوچھا۔۔ "میں آگے بیٹھوں یا پیچھے" تو اس نے کہا آگے بیٹھ جائیں۔
میں پوچھنے کے باوجود پیچھے بیٹھ گیا۔ کچھ خاموشی کے بعد اس نے بات شروع کی تو کہنے لگی کہ "آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے پوچھا اور پوچھنے کے باوجود پیچھے بیٹھ گئے۔ ہمارے معاشرے میں مرد مجبور عورت کا فائدہ اٹھاتے ہیں"۔
وہ مجھے بتانے لگی کہ اکثر مرد جو میرے ساتھ سفر کرتے ہیں وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہیں تو جب میں گاڑی کو گئیر لگاتی ہوں تو وہ مجھے جان بوجھ کر کہنی سے چھونے کی کوشش کرتے ہیں حتیٰ کہ میں جب رائیڈ ختم کر کے گھر جاتی ہوں تو لوگ مجھے راتوں کو کال کرتے ہیں تو پھر مجھے مجبوراً اکثر کسٹمرز کے نمبر بلاک کرنا پڑتے ہیں"۔
سمیرا نے اپنے ڈرائیور بننے کی روداد سنائی کہ اس کے والد تقریباً اندھے ہو چکے ہیں اور اسکی والدہ ایک گھر میں کام کرتی ہیں۔ سمیرا نے بتایا کہ اس نے ڈرائیونگ سیکھی لیکن اس کے پاس اپنی گاڑی خریدنے کے پیسے نہیں تھے سو اس نے تنخواہ پر کسی کی گاڑی چلانا شروع کردی۔ وہ ایک کمرے کے گھر میں رہتی ہے اور اکثر گھر کا کرایہ دینے اور بہن، بھائیوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اسے 14 گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ عورت کیوں سب کچھ نہیں کرسکتی۔ وہ ڈاکٹر، ٹیچر، انجینئر، نرس، شاپ کیپر، سیلزگرل، ڈرائیور، آیا، لوگوں کے گھروں میں صفائی کی ملازمت کرتی ہے تو اس کی بھی تو کوئی گھریلو مجبوری ہوسکتی ہے۔
یہ کہانی ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ ایک لڑکی اپنی مرضی یا کسی مجبوری کی حالت میں کام کرتی ہے تو ہمیں چاہیے کہ اس کی پردہ داری کا خیال رکھیں۔ اس کو آرام دہ اور تحفظ والا ماحول دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی کی مشکلات سے نبردآزما ہو سکے بجائے اس کے کہ مرد اسے ہراساں کر کے اسکی جاب کو مزید مشکل بنا دیں۔