بیٹوں کو ماں کے کفن کے پیسے بھی میں نے دیے۔ جی ہاں یہ الفاظ اس والد کے ہیں جس کے 8 بچے ہیں پر یہ پھر بھی جگہی میں رہنے پر مجبور ہے۔
یہ بابا جی کہتے ہیں کہ میں نے جب جوانی میں کام ویلڈنگ کا کام سیکھا تو تب سے لیکر آج تک کسی پر بوجھ نہیں بنا تو اب کیا بچوں سے مدد مانگوں، جب انہیں خود ہی احساس نہیں تو۔
ایک ایسا بھی وقت تھا کہ اچھے گھر میں رہتے تھے بے شک وہ گھر کرائے کا ہی تھا مگر جتنا کماتا تھا بچوں کی پڑھائی اور کھانے پینے میں لگا دیتا تھا۔ سوچتا تھا بچے ہمارا سہارا بنیں گے مگر اب لوگوں کو کہتا ہوں کہ اپنے بڑھاپے کیلئے بھی کچھ بچا کر رکھا کریں جو مستقبل میں کام آ سکے۔ یہ بزرگ پنجاب میں دریائے راوی کے کنارے پر اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے۔
اہلیہ اور ان کو خود شوگر کا مرض تھا اسی مرض کی وجہ سے بیوی چارپایہ پر ہی لیٹی رہتی تھیں مگر اب ان کا انتقال ہو گیا جس پر 8 کے 8 بچے آئے مگر کفن اورآخری رسومات کیلئے پیسے بھی مجھ غریب باپ سے لیے جو میں نے خوشی خوشی دیے کیونکہ مجھے معلوم ہے زندگی کے پہلے دن سے آخری دن تک میری بیوی نے کچھ نہیں مجھ سے مانگا۔
اپنا گزارا بس یوں ہی ہوتا تھا کہ ایک چائے کو چھوٹا سا ڈھابہ لگایا ہوا تھا جو اب بند ہو گیا لیکن اب بچوں کے جھولے لگا رکھے ہیں، انہی بچوں کو کہہ دیتا ہوں تو مجھے کھانا لا دیتے ہیں۔
یہ ایک ایسی داستان ہے جس نے سب کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے کیونکہ آج سے چند ایک ماہ پہلے اس غریب جورئ کا ایک انٹرویو وائرل ہوا تھا۔
مگر اب جب دوسرا انٹرویو وائرل ہوا تو اس بزرگ بابا جی کی اہلیہ کو انتقال ہوئے 8 ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ مزید یہ کہ بابا جی کہتے ہیں کہ میری اہلیہ کو دنیا سے جاتے ہوئے بھی میری فکر تھی وہ کہہ ر ہی تھی۔
اب صرف میرے بعد آپکا خیال ہماری بری بیٹی ہی رکھے گی اور یوں ہی ہوا بڑی بیٹی بھی کچھ دنوں بعد ملنے آتی ہے، روز کھانا بھجوا تی ہے۔