یہ جب گراؤنڈ میں آتے ہیں تو ہر طرف آصف آ صف کے نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ عزت کرکٹ کے گرؤنڈ میں جارہانہ مجاز بلے باز کو صرف اس لیے ملتا ہے کیونکہ انہوں نے کئی ہارے ہوئے میچ پاکستان کو اپنی بلے بازی سے جیتوا دیے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والے اور دوست احباب انہیں "اے کے 45" کے نام سے پکارتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سے مشکل حالات میں بھی چھکے مارتے ہیں اس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی بلے سے رنز گولیوں کی طرح نکل رہے ہیں۔
مزید یہ کہ ہمارا وہ ملک ہے جہاں کرکٹ نوجوانوں کی رگوں میں خون بن کے دوڑتا ہے مگر گھر والوں اور ملک کی جانب سے انہیں زیادہ سپورٹ نہیں ملتی۔
جس کی وجہ سے ان ہیروں کو محنت مزدوری بھی کھیل کے ساتھ کرنی پڑتی ہے جیسا کہ آصف علی نے بھی کیرئیر کے آغاز سے پہلے ایک اسٹیل فیکٹری میں کام کیا اور اس وقت حالات ایسے تھے کہ ایک نیا موٹر سائیکل بھی نہیں خرید سکتے تھے اس ی لیے ایک پرانا موٹر سائیکل 50 ہزار میں خرید کر چلانا شروع کر دیا۔
مگر وہ کہتے ہیں نا کہ انسان جب سخست محنت کرتا ہے تو اسے پھل ضرور ملتا ہے۔ اور آج قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر پوری پاکستانی ٹیم میں کوئی بھی ہمیں جیت نہیں جیتوا سکتا۔
لیکن آسف کے چھکوں کے باعث ہم ہارا ہوا میچ بھی جیت جاتے ہیں بالکل ایسا ہی عوام سابق کپتان شاہد آفریدی کو بھی پیار و عزت دیتی تھی۔