پاکستان میں سیلاب کے بعد ہزاروں افراد ڈینگی کا شکار ہوچکے ہیں، اسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے اور سیکڑوں زندگیاں داؤ پر لگی ہیں لیکن گزشتہ سال 50 ہزار کے قریب لوگوں کو متاثر کرنے والا ڈینگی رواں سال بھی ملک میں تباہی مچاتا جارہا ہے۔
ڈینگی مچھر سے پھیلنے والی ایک بیماری ہے جو کہ ہر سال تقریباً 10سے 40 کروڑ افراد کو متاثر کرتی ہے۔ ڈینگی کے مریض کا دماغ، جگر اور گردے متاثر ہوسکتے ہیں اور یہ مرض جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔جس گھر میں ایک شخص کو ڈینگی ہو وہاں دوسرے بھی اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ڈینگی وائرس کے حوالے سے آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ بیماری کوئی نئی نہیں ہے بلکہ اس کا باقاعدہ اندراج 1943 میں جاپان میں ہوا اور پاکستان 1994میں اس خطرناک بیماری کا شکار ہوا اور اب تک ہزاروں قیمتی جانیں ڈینگی مچھر کی وجہ ضائع ہوچکی ہیں۔
یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ ڈینگی کی بیماری مچھر کے کاٹنے سے ہوتی لیکن آپ کو بتاتے چلیں کہ اس بیماری کو پھیلانے والی مچھر مادہ ہوتی ہیں۔ مادہ مچھروں کو انڈہ دینے کیلئے خون کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ وہ انسانوں کو کاٹ کر پوری کرتی ہیں۔ کاٹتے ہوئے مادہ مچھر اپنی تھوک نکالتی ہے جو کہ خون کو جمنے نہیں دیتا اور اس دوران وہ اپنے انڈے کیلئے درکار خون حاصل کر لیتی ہے۔
ڈینگی بخار مچھروں کی ایک قسم Aedes کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو خود ڈینگی وائرس سے متاثر ہوتا ہے اور کاٹنے کے بعد خون میں وائرس کو منتقل کردیتا ہے۔ یعنی اگر مچھر کے تھوک میں وائرس موجود ہو تو متاثرہ شخص کو ڈینگی بخار ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ بیماری ڈلیوری کے وقت ماں سے بچے میں اور خون کی منتقلی کے دوران بھی پھیل سکتی ہے۔
برسات کا موسم ان مچھروں کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہوتا ہے اور پاکستان میں بھی اس وقت مختلف شہروں میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اور ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 40 کروڑ افراد کو ڈینگی انفیکشنز کا سامنا ہوتا ہے۔
خطرناک ہونے کے باوجود آج بھی اکثر لوگ ڈینگی کو سنجیدہ نہیں لیتے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ڈینگی کی علامات عموماً بیمار ہونے کے بعد 4 سے 6 دن میں ظاہر ہوتی ہیں اور اکثر 10 دن تک برقرار رہتی ہیں۔
ڈینگی کی علامات میں اچانک تیز بخار، شدید سردرد، آنکھوں کے پیچھے درد، جوڑوں اور مسلز میں شدید تکلیف، تھکاوٹ، قے، متلی، جلد پر خارش، ناک اور مسوڑوں سے خون کا اخراج بھی شامل ہے لیکن یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ضروری نہیں کہ ڈینگی سے متاثرہ انسان میں ہمیشہ یہ علامات ظاہر ہوں بلکہ اکثر کیسز میں متاثرہ شخص میں معمولی علامات ظاہر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ اس کو وائرل انفیکشن یا فلو سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ جس طرح دوسری بیماریاں انسان کیلئے جان لیوا ہوسکتی ہیں اسی طرح ڈینگی بھی تھوڑی سے لاپرواہی اور علاج میں تاخیر کی وجہ سے انسان کو شدید نقصان پہنچاسکتا ہے۔ ڈینگی وائرس جسم میں داخل ہوتے ہی تیز بخار ہو جاتا ہے جو کہ 104 اور 105 سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے جسم کے درجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلی ہوتی ہے۔
متاثرہ انسان کو اس سے ہیمرج فیور ہوسکتا ہے اور گردے بھی خراب ہوسکتے ہیں۔مریض مکمل بے ہوشی یعنی کوما میں جاسکتا ہے، جگر کے معمولات خراب ہوجاتے ہیں۔شریانوں اور رگوں میں خون جمنے لگتا ہے اور جسم کے مختلف حصوں سے خون جاری بھی ہو سکتا ہے۔
ڈینگی کا نشانہ عام طور پر ایسے افراد زیادہ بنتے ہیں جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ ڈینگی کا مچھر عام طور پر رنگین ہوتا ہےاس کا جسم زیبرے کی طرح دھاری دار جبکہ ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت لمبی ہوتی ہیں۔امریکی تحقیقات کے مطابق یہ مچھر صبح طلوع آفتاب سے لے کر 8 بجے تک اور شام غروب آفتاب کے وقت باہر نکلتے ہیں اور لوگوں کو کاٹتے ہیں۔جس متاثرہ فرد کو ان مچھروں کے کاٹنے سے ڈینگی ہوا وہ گھر میں دیگر افراد میں بھی اس بیماری کو پھیلا سکتے ہیں۔
ڈینگی کے علاج کیلئے کوئی مخصوص ادویات نہیں ہیں ،اس لئے ڈاکٹرز علامات کو کم کرنے کے لیے ادوایات تجویز کرتے ہیںلیکن کچھ چیزوں پر عمل کرکے آپ خود اس خطرناک بیماری سے خود کو اپنے پیاروں کو بچاسکتے ہیں۔
یاد رکھیں گے ڈینگی کے مچھر صاف پانی میں رہنا پسند کرتے ہیں ،اس لیے گھر میں پانی کوڈھانپ کر رکھیں۔گھروں میں استعمال ہونے والی ٹینکی کو اچھی طرح صاف کیا جائے ،پانی اسٹور کرنے والے برتن صبح و شام صاف کیے جائیں۔
گھروں میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ گھر یا آس پاس موجود پانی میں مچھر پیدا نہ ہوں۔ مچھروں سے بچاؤ کیلئے اسپرے کیا جائے، جسم پر لوشن یا تیل لازمی لگائیں، پوری آستین کے کپڑے پہنیں اور معمولی علامات پر بھی فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔