پشاور: تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن پاکستان میں اس وقت سستی اور معیاری تعلیم جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، بھاری فیسیں اور کاپیوں کتابوں کا بوجھ والدین کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے لیکن پاکستان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بچوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کیلئے کسی نہ کسی طرح اپنا حصہ ضرور ڈالتے ہیں۔
ایسے ہی ارزان چاچا کے نام سے مشہور ایک بزرگ سید بادشاہ بھی ہیں جو گزشتہ چالیس سال سے اسلامیہ کالج پشاور میں اسٹیشنری کی دکان صرف اس مقصد سے چلا رہے ہیں تاکہ طلباء کو کم قیمت پر کتابیں وغیرہ مہیا کرسکیں۔
ارزان چاچا کے نام شہرت پانے والے اسلامیہ کالج کی مشہور ترین شخصیت کا تعلق لکی مروت سے ہے، انہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد آئی سی پی میں طلباء کے ہاسٹل کی دیکھ بھال کا کام شروع کیا۔
جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ کیمپس میں بک ڈیلر طلبہ سے کتابوں، نوٹ بک اور یونیفارم کے لیے بہت زیادہ پیسے وصول کررہے ہیں جس کے بعد انہوں نے کالج انتظامیہ سے بک اسٹور بنانے کی اجازت لی تاکہ طلبہ کو کم قیمت پر کتابیں اور اسٹیشنری فراہم کی جاسکے۔
کالج میں سستے داموں کاپیوں، کتابوں اور دیگر سامان کی فراہمی پر لوگوں نے سید بادشاہ کا نام ارزان چاچا رکھ دیا اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تین دہائیاں قبل پاس آؤٹ ہونے والے طلباء اپنے بچوں کو ان کی دکان پر بھیجتے ہیں جہاں یہ بزرگ نہ صرف کم قیمت پر چیزیں فروخت کرتے ہیں بلکہ بچوں کو ایک یا دو پنسل مفت تحفے میں بھی دیتے ہیں۔
سید بادشاہ عرف ارزان چاچا کا کہنا ہے کہ میں پچھلے 40 سالوں سے کتابیں اور طلباء کے یونیفارم بیچ رہا ہوں۔ میں صرف 10 سے 15 فیصد منافع کماتا ہوں جبکہ دیگر بک ڈیلر جعلی ٹیگ کی قیمت لیتے ہیں اور خریداروں سے 50 سے 70 فیصد اور بعض اوقات 100 سے 150 فیصد تک وصول کرتے ہیں۔ یہ سراسر ناانصافی ہے لیکن کوئی بھی اس کا نوٹس نہیں لیتا۔
انہوں نے بک ڈیلرز سے درخواست کی کہ وہ کتابوں اور اسٹیشنری کی اشیاء کی قیمتیں کم کریں تاکہ غریب طلباء تعلیم حاصل کر سکیں۔ان کا کہنا ہے کہ 10 سے 15 فیصد منافع بھی عاجزانہ زندگی گزارنے کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے حریفوں نے میرے غریب گاہکوں کی حوصلہ شکنی کے لیے تین بار میری موت کی خبریں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں لیکن مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
سید بادشاہ نے بتایا کہ پچھلے سال امریکہ اور برطانیہ کے چند پرانے طلباء نے انہیں رقم عطیہ کی تھی اور اسے غریب طلباء کے لیے استعمال کرنے کا کہا۔
ان کا کہنا ہے کہ کم قیمت پر کتابیں اور اسٹیشنری والدین پر تعلیم کا بوجھ کم کرسکتی ہے۔ متعلقہ حکام اس کا نوٹس لیں۔ غریب والدین اتنی زیادہ قیمتیں برداشت نہیں کر سکتے۔ میں خریداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ کتابوں پر جعلی ٹیگ کی قیمتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین نہ کریں بلکہ ایسی جگہ سے خریداری کریں جہاں منافع کی شرح کم رکھی جاتی ہو۔