ہم مہاجرین کیمپ میں تھے کہ آواز آئی سکھوں نے حملہ کردیا ہے۔ وہ مردوں کو مار دیا کرتے تھے اورعورتوں اور بچوں کو اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔ میرے والد ایک لیڈرصفت آدمی تھے، انہوں نے نعرہ لگایا کہ ہم کیمپوں سے باہر نکل کرمقابلہ کریں گے۔
اپنی تمام عورتوں اور بچوں کے ہمراہ راوی کےکنارے پرکھڑے ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں ہلنا جب تک یہاں دوبارہ "اللہ اکبر" کا نعرہ نہیں گونجتا لیکن اگر ایسا نہ ہو اوراللہ اکبر کے بجائے"واہے گرو کا نعرہ بلند ہوتوبچوں کے ساتھ ہی اس چلتے دریا میں کود جانا۔ "کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کیسے بنا تھا کیونکہ اس وقت میں اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے اس پانی میں کھڑا تھا" آج بھی یہ بتاتے ہوئے میری ٹانگیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں۔

یہ بات اپنی ایک گفتگومیں جامعہ کراچی کے سابق پروفیسراورمشہورمحقق پروفیسرابوالخیرکشفی مرحوم نے قیام پاکستان کی داستان سناتے ہوئے گلوگیرآواز میں کہی تھی۔ پاکستان کا قیام لاکھوں شہیدوں اوران گنت عورتوں اور بچوں کی عزتوں کی پامالی کی داستان ہے۔ خون کی ندیاں بہائی گئیں، یہاں پہنچنے والے لٹے پٹے مہاجرین اپنا سب کچھ پاکستان کے نام پر قربان کرکے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہہ کراسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست کے لئے آئے تھے، اپنی جائیدادیں اپنے پرکھوں کی قبریں، اپنی جوان بچیوں کی خون آلود لاشیں، اپنے بچوں اور عورتوں کی کٹی پھٹی لاشیں، اپنے پیاروں کے بے گوروکفن لاشے، اوراپنا مال و اسباب سب لٹا کر قائداعظم کا ساتھ دینے اس مملکت خداداد پاکستان پہنچے تھے۔

سکھوں نے راستوں میں حملہ کر کے پوری پوری ٹرینیں کاٹ ڈالی تھیں، حاملہ عورتوں کے اپنی تلواروں اور برچھیوں سے پیٹ پھاڑ دئیے تھے، پیدا ہوئے بچوں کو اپنے نیزوں میں پرو کر ست سری اکال کے نعرے لگائے تھے، عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کی تھی، مردوں کی گردنیں اڑا دی تھیں، لیکن یہ سب بھول کر صرف اس وطن کے لئے عظیم ترین ہجرت کی گئی تھی۔ ہر گلی ہر کوچے میں نعرے گونجتے تھے"پاکستان کا مطلب کیا؟لاالٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ۔۔

آج جب کوئی اس وطن کی آزادی یا اس کی حرمت یا اس کے ٹوٹنے کی بات کرتا ہے، یا اس ہجرت اور قربانی کو غلط کہتا ہے توکیسے ان کے دل پر چھریاں چلتی ہوں گی جنہوں نے اپنا تن من دھن اس سرزمین پر وار دیا۔ وہ لوگ کیا جانیں اس سرزمین کی اہمیت جن کو بیٹھے بٹھائے یہ آزاد وطن حاصل ہوگیا، جو آج اس ملک کو برابھلا کہتے نہیں تھکتے، جو کہتے ہیں اس وطن نے ہمیں دیا ہی کیا ہے۔ ارے کوئی ان سے جا کر یہ پوچھے کہ تم نے اس وطن کو کیا دیا ہے، اس وطن نے تو ہمیں پہچان دی، ہمیں عزت دی، ہمیں سر چھپانے کو چھت دی،پیروں تلے زمین دی۔ اور ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ اس کو لوٹنے کھسوٹنے میں لگے ہیں۔ اس کا آدھا بازو کٹوا دیا۔ اور پھر کہتے ہیں کہ اس نے ہمیں کیا دیا۔ یہ وطن ہماری پہچان ہے۔ یہ ہے تو ہم دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے قابل ہیں۔۔ یہ وطن ہماری ماں، ہماری جان ،ہماری شان ہے۔ اس کے لئے جان بھی قربان ہے۔