اچانک تیز بارش شروع ہو جائے تو یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں سوار ہوتا ہے کہ بن موسم برسات کیوں ہو رہی ہے ظاہر ہے ڈر لگنے لگتا ہے کہ کوئی قدرتی آفت تو نہیں آنے والی۔ لیکن اگر آسمان سے بارش کی جگہ اچانک راکھ برسنے لگے اور کئی دن تک برستی ہی رہے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ یقیناً آپ ڈر جائیں گے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ایسا پہلے شاید آپ بھی کبھی سنا تو نہیں ہوگا، لیکن کئی گرافیکل تصاویر میں دیکھا ضرور ہوگا کہ آسمان سے سفید اور کالی یا پھر سرمئی رنگ کی راکھ سارے میں بکھری پڑی ہے۔
آج ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں کہ ایسا حقیقت میں بھی ہو چکا ہے۔ 16 جولائی 1945 کو امریکہ میں ایک بڑا دھماکہ ہوا جس کی آواز دور دور تک گئی۔ دھماکے کے ساتھ ساتھ ’سورج کی روشنی سے زیادہ طاقتور چمک اور دھوئیں کے گہرے بادل نکل گئے۔ ہر طرف راکھ ہی راکھ بکھر گئی۔ روشنی اتنی تیز کہ آسمان کی طرف دیکھا نہ جائے، راکھ اتنی زیادہ کہ آنکھیں نہ کھل سکیں۔ دھماکے سے گھر ہل گیا تھا اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے، ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ شاید قیامت آگئی ہے۔
دھماکہ توقع سے زیادہ طاقتور تھا اور اس نے سورج سے نکلنے والی حرارت سے دس ہزار گنا زیادہ درجہ حرارت پیدا کیا۔ یہ وہ پہلا موقع تھا کہ جب امریکہ میں پہلی مرتبہ ایٹمی تجربہ کیا گیا۔ جو کسی حد تک کامیاب اور کسی حد تک ناکام رہا۔ اس کے اثرات اتنے جان لیوہ تھے کہ زندہ موجود افراد کچھ ہی وقت بعد کینسر کے مرض سے مر گئے کیونکہ تابکار شعاعیں بہت زیادہ اثرانداز ہو رہی تھیں جن سے پھیپھڑے گل سڑ چکے تھے۔
ڈیمیسیو پیرالٹا ایک امریکی کسان تھا جو اپنے باغوں میں کھیتی باڑی کرتا تھا وہ معمول کے مطابق کھینی باڑی ہی کر رہا تھا کہ اچانک اس نے دھماکے کی آواز سنی۔ اس کے 9 بچے تھے اور بیوی حاملہ تھی اس کے ہاں دسویں بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔
ڈیمیسیو اپنے مویشیوں کو دیکھنے گئے تو پتہ چلا کہ کھیت کے ساتھ جانور غرض کہ ہر چیز نے راکھ کی سفید چادر اوڑھ لی۔ یہ ’ٹرینیٹی ٹیسٹ مین ہٹن پراجیکٹ‘ کا حصہ تھا جو دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹم بم تیار کرنے کا پروگرام تھا۔ لیکن اس سے آبادی کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔ یہ آبادی جن میں سے بہت سے مقامی امریکی یا ہسپانوی نژاد تھے یہ بہت تباہی کا شکار ہوئی۔
لیکن حالات نے ثابت کیا کہ اس ٹیسٹ کا ان آبادیوں پر گہرا اثر پڑا۔ 75 سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد زندہ بچ جانے والے اور ان کی اولادیں اس کے اثرات کو دہائیوں تک محسوس کرتی رہیں۔
پورسیلا جوکہ اس کسان کی بیٹی تھی انہوں نے بتایا کہ میرے 10 بھائی بہن تھے، سب کینسر کا شکار ہوگئے کیونکہ دھماکہ بہت زیادہ تیز تھا اور وہ قابلِ برداشت نہیں تھا۔
دھماکہ کیسے کیا گیا؟
16 جولائی 1945 کو صبح 5:29 بجے پلوٹونیم بم کو ایک ٹاور کی چوٹی پر پھینکا گیا اور دھماکہ کر دیا گیا۔ دھماکے کی شدت سے 150 کلومیٹر سے زیادہ دور کے شہروں میں کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
اس سے بہت نقصان ہوا۔ بم امریکہ نے بنا تو لیا لیکن اس کا ٹیسٹ کرنا مہنگا پڑ گیا۔ آج بھی
پورسیلا اور ان کے گھر والے اپنے گھر کو یاد کرکے روتے ہیں۔
اس ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں 4 دن تک آسمان سے راکھ برستی رہی۔