بیٹیوں کے لیے والد سب سے بڑا سہارا ہیں۔ باپ اپنی بیٹیوں کی ہر خواہش پورا کرنے کے لیےسب کچھ کرتے ہیں۔ جہاں باپ تکلیف میں ہوتے ہیں تو بیٹیوں سے بھی رہا نہیں جاتا۔ بالکل ایسا ہی معاملہ پیش آیا صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ گھنور خان کے ساتھ جن کو جگر کا کینسر ہوا۔ جس کو ختم کرنے کے لیے صرف ایک حل تھا اور وہ جگر کا ٹرانسپلانٹ تھا۔ ڈاکٹر ان کو جواب دے چکے تھے۔ لیکن اس شخص کی چھوٹی بیٹی نے اپنا جگر والد کو عطیہ کر دیا۔ کوئی ہسپتال یہ آپریشن کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ گھنور ایچ آئی وی پازیٹیو تھے۔ لیکن خیرپور کے گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نے پہلی بار پاکستان میں یہ کامیاب آپریشن کرکے صرف گھنور کو ہی حیران نہیں کیا بلکہ دیگر پاکستانی ڈاکٹر بھی حیران رہ گئے ہیں۔
گھنور کے گھر والوں کو جب اس بات کا پتہ چلا کہ جگر ٹرانسپلانٹ واحد حل ہے تو ان کی سب سے چھوٹی 20 سالہ بیٹی نے اپنے والد کی جان بچانے کے لیے اپنا جگر دینے کا فیصلہ کرلیا۔ جب اس نے ڈاکٹر سے بات کی تو وہ مان گئے لیکن والد گھنور اس بات کے لیے راضی نہ تھے کہ سب سے چھوٹی بیٹی اپنا جگر دے گی۔
چونکہ ان کو جگر کا کینسر تھا جس کی وجہ سے یہ بہت زیادہ کمزور اور چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئے تھے۔ خون کی بیش بہا الٹیاں ہونے اور خون کی کمی کی وجہ سے حالت سنجیدہ ہوگئی تھی۔ ایسی حالت میں یہ آپریشن ہونا ایک بڑا ضروری عمل تھا۔ ڈاکٹروں نے اپنی پوری کوشش کرکے اس آپریشن کو یقینی بنایا۔
بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں لڑکی نے بتایا کہ: '' ابو کے لیے سارا جگر بھی چاہیے ہوا تو وہ بھی دوں گی۔''
میرے لیے ابو کی زندگی سب سے بڑھ کر ہے یہ ہمارے ساتھ رہیں اور ہم ایک کامیاب زندگی گزاریں۔
میری شروع سے ہی یہ خواہش تھی کہ میں اپنے ابو کے لیے کچھ کروں اور اگر اللہ نے مجھے یہ موقع دیا تو اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوسکتی ہے۔''