غریبوں کی مدد کرنے کا جذبہ ہر کسی کے دل میں اگر بیدار ہو جائے تو بڑی سے بڑی مشکل کو بھی آسان کیا جاسکتا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں گردوں کی پیوندکاری ممکن نہ تھی اور لوگ امریکہ جایا کرتے تھے اپنے علاج کے لئے، لیکن ہر کوئی نہیں جاسکتا تھا کیونکہ یہ بہت مہنگا خرچہ تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر ادیب رضوی نے پاکستان میں 1985 میں سب سے پہلے گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کا عمل ممکن بنایا اور فری میں علاج معالجے کی سہولت فراہم کی۔
ڈاکٹر ادیب رضوی 11 ستمبر 1938 کو اترپردیش میں بھارت میں پیدا ہوئے اور پاکستان بننے کے بعد یہاں منتقل ہوئے، ان کو پچپن سے ہی خدمتِ خلق کے لئے کام کرنے کا شوق تھا انہوں نے ڈاؤ میڈیکل ہسپتال سے ایم بی بی ایس کیا اور اس کے بعد برطانیہ سے مذید تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب ادیب رضوی پاکستان واپس آئے۔
یہاں آ کر انہوں نے سول ہسپتال میں اپنی خدمات انجام دیں اور اسسٹنٹ پروفیسر بن کر تعلیم کے لئے کوششیں کیں۔ اسی دوران ڈاکٹر ادیب رضوی نے 8 بیڈ پر مشتمل ایس آئی یو ٹی کا ایک چھوٹا سا ڈیپارٹمنٹ بنایا جس میں ان کے قریبی دوستوں نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے کئی اموات اپنے سامنے ہوتی دیکھیں جس سے دل برداشتہ ضرور ہوئے لیکن ہمت نہ ہاری اور پھر استعمال شدہ مشینری کو انگلینڈ سے درآمد کروایا۔ یہ سب کام آسان نہ تھے مگر انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یوں 1985 میں پاکستان میں پہلا گردہ ٹرنسپلانٹ کروایا جوکہ بالکل مفت تھا۔
انہوں نے ایک نجی شو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ:
''
جب پہلا ٹرانسپلانٹ کیا جانے والا تھا وہ بھی بالکل فری اس وقت میں اتنا پریشان تھا کہ پیسے کہاں سے لاؤں گا اور دوائیاں جو پاکستان میں دستیاب ہی نہیں ان کو کیسے منگواؤں گا؟ لیکن پھر بھی میں نے اپنی جیب سے خرچہ کیا اور ضروری کاموں کے لئے کوشش کی، یوں اللہ کی مدد سے میں نے یہ مشکل ہدف آسان بنایا۔
''
مدد کب تک اور خواب کیا؟
ڈاکٹر ادیب رضوی کہتے ہیں کہ:
''
میں لوگوں کی مدد کیسے نہ کرتا جبکہ میں کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا، میری اپنی جیب میں چاہے پیسے نہ ہوں، میں ہمیشہ ضرورتمندوں کی مدد کے لئے کام کیا ہے۔ کب تک یوں گردوں کے مرض میں تکلیف برداشت کرتے کرتے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھوں گا؟ جتنا مجھ سے ہوسکتا ہے وہ میں کام کر رہا ہوں، اب البتہ خود بوڑھا ہوچکا ہوں، زندگی کی سانسیں کمزور ہوگئی ہیں، لیکن جب تک لوگوں کو زندگی دلوانے کی امید بن سکتا ہوں وہ میں کرلوں تاکہ خدا کو اچھا جواب دہ ہو سکوں۔ میرا خواب ہے کہ اس ادارے سے پاکستان بھر کے لوگوں کا فوری اور فری علاج ہوتا رہے اور لوگ مجھے دعائیں دیتے رہیں۔
''
بنایا کیسے؟
ڈاکٹر ادیب کہتے ہیں کہ:
''
میں نے جب اس کا ارادہ کیا تو کچھ قریبی دوستوں نے میرا ساتھ دیا، وہیں کئی لوگوں نے مجھے بیوقوف کہہ ڈالا، لیکن وقت گزرتا رہا، لوگوں نے خود بخود مجھ سے رابطہ کیا ، مجھے امداد دی، میری مدد کی اور آج تک کوئی ایسا شخص نہیں ملا مجھے جو پیسے دے کر سب کے سامنے جتائے، مجھے لگتا ہے یہ میری اکیلے کی نہیں بلکہ ہر اس شخص کی بدولت کھڑا ہے جس نے اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالا، مجھے تو بس خدا نے اس کا ذریعہ بنایا ہے۔
''