دوستی کے بعد محبت اور محبت کے شادی کرنا ایک بڑا فیصلہ ہے اور یہ تینوں مرحلے انسان کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، جہاں تعلیم اور نوکری ہمارے لئے ضروری ہیں وہیں شادی بھی ایک سُنت ہے جس کو ادا کرنا فرض ہے۔ بہرحال جہاں شادیوں کی بات آتی ہے وہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکا کیسا ہے یا لڑکی کیسی ہے، کیسا خاندان ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔
ان تمام باتوں میں اکثر یہی دیکھا جاتا رہا ہے کہ لوگ لڑکیوں کو باتیں سناتے ہیں ان پر تنقید کرتے ہیں، اگر لڑکی میں کوئی نقص ہوتا ہے تو اس کو واضح کیا جاتا ہے البتہ لڑکوں کو نقص کے ساتھ بھی لوگ قبول کرلیتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال اب تک جو ہمارے سامنے آئیں وہ درج ذیل ہیں۔
٭ ثناء داؤد:
لاہور کے رہائشی داؤد صدیق اور ان کی بیوی ثناء ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ان کی کہانی جان کر شاید آپ کو بھی یہی احساس ہوگا کہ ہر محبت کرنے والے کو ثناء کی طرح ثابت قدم رہنا چاہیئے تاکہ محبت کی عزت یہ معاشرہ بھی کرے۔
داؤد کہتے ہیں کہ:
ثناء میری دور کی رشتے دار ہے جو کہ مجھے خاندان کی ایک تقریب میں ملی، جہاں مجھے وہ اچھی لگی اور ہماری دوستی ہوئی، ہم دونوں کا ایک دوسرے سے رابطہ موبائل فون کی وجہ سے تھا، ہم ملتے تو نہیں تھے، ہاں البتہ میسج اور فون کال پر رابچے میں رہتے تھے۔ ثناء کی والدہ کا انتقال ہوچکا تھا، یہ اپنے ولاد اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی، مجھے ثناء کو دیکھتے ہی اس سے محبت ہوگئی تھی اور ثناء بھی مجھے پسند کرنے لگی تھی۔
ایک دن ثناء نے مجھ سے کہا کہ ہم کب ملیں گے؟ آپ آج ہی آ جاؤ مجھ سے ملنے، اس وقت میں بہت خوش ہوا، میں نہیں جانتا تھا کہ خوشی کو کن الفاظ میں بیان کروں۔
مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ میں ثناء سے ملنے جاؤں گا تو میرے ساتھ کیا حادثہ پیش آ جائے گا اور میں ہمیشہ کے لئے معذور ہو جاؤں گا۔
حادثہ کیسے ہوا؟
داؤد ثناء سے ملنے جا رہے تھے تو ان کے ہاتھ میں ایک لوہے کا ڈنڈا تھا، جس کو ان کے والد نے چھت پر رکھنے کے لئے کہا تھا، بہرحال داؤد کہتے ہیں کہ:
میں جوں ہی چھت کی طرف گیا، بجلی کے تاروں سے وہ ڈنڈا ٹکرایا جس سے مجھے ایک زوردار کرنٹ لگا اور اچانک دھماکہ ہوگیا، اور میں زمین پر جاکر پڑا اور میرا جسم جل گیا۔
لوگوں نے مجھ پر مٹی ڈالی تاکہ آگ بھجائی جا سکے، جس پر میں نے ان سے یہی کہا کہ مجھے یہاں سے باہر نکالو، میں تکلیف میں ہوں، مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا اور پھر بیہوش ہوگیا۔
ہوش آیا تو؟
داؤد بتاتے ہیں کہ: میں نیم بیہوشی میں تھا میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ مجھے تو ثناء سے ملنے جانا تھا اور اچانک آنکھ کھل گئی مگر جب مجھے ہوش آیا تو دیکھا کہ میں ایک بستر پر لیٹا ہوا ہوں، میرا پورا جسم سفید پٹیوں سے بھرا پڑا ہے، میرے چاچا نے مجھے بتایا کہ میرے ساتھ حادثہ ہوگیا ہے اور اس لئے میری ٹانگ اور بازو کاٹ دیئے گئے۔ میرے دل میں بس خیال آتے رہتے تھے کہ اب تو میں معزور ہو گیا ہوں، ثناء مجھے چھوڑ دے گی، وہ مجھ جیسے شخص کو کیوں پسند کرے گی، اب مجھے اپنی محبت کبھی نہیں ملے گی۔
ثناء کو کیسے پتہ چلا؟
ثناء کو جب داؤد نے کہا کہ ہاں میں ملنے آ رہا ہوں تو وہ اس کے انتظار میں فون کرتی رہی اور پھر داؤد کا فون مستقل بند ہوگیا، ثناء بتاتی ہیں کہ: داؤد میرے دور کے رشتے داروں میں سے تھا تو میں نے اپنے رشتے داروں سے اس کا پتہ نکلوایا تو معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا ہے اور وہ ہسپتال میں ہے۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں ہسپتال گئی تو مجھے کسی نے اس سے ملنے نہ دیا، لیکن میں چھپ کر داؤد کے کمرے میں گئی، اس کو دیکھا اور اس کے کان میں صرف اتنا کہا، تمہاری ثناء تمہارے پاس آگئی ہے، تمھیں کچھ نہیں ہوگا، ثناء تمہارا ہر حال میں ساتھ دے گی اور کچھ وقت بعد داؤد کو ہوش آگیا تھا۔
شادی کیسے ہوئی؟
ثناء کے والد اس شادی کے خلاف تھے، جس کی وجہ سے ثناء نے اپنا گھر چھوڑ دیا، ایک ماہ اپنی قریبی خالہ کے گھر رہی اور داؤد کو فون کیا کہ اب میں تمھیں نہیں چھوڑ سکتی، میں تمہارے لئے سب کچھ چھور کر آئی ہوں، آپ مجھ سے شادی کرلو، میں آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گی، یوں دونوں کی شادی داؤد کے ماموں کے گھر پر ہوئی۔
داؤد کے گھر والے راضی نہیں تھے:
داؤد کے گھر والے شادی کے لئے رضامند نہ تھے کیونکہ داؤد کی ایک ٹانگ اور دو بازو کٹ چکے تھے، ان کا خیال تھا کہ کسی بھی لڑکی سے داؤد کی شادی کرنا زیادتی ہے، مگر ثناء کی محبت نے ہر کسی کا دل مول لیا، اب ثناء داؤد کا ہر کام خود کرتی ہے، اس کے ساتھ خوش بھی ہے۔
٭ ایرک اور اس کی بیوی:
لڑکے کا ایک بازو کٹ گیا تھا، کوئی اسے نوکری نہیں دیتا تھا اور نہ کوئی اپنی بیٹی دینے کے لئے تیار تھا، لیکن جو خدا کو منظور، ایک لڑکی نے ان سے پسند کی شادی کی اور اپنی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بخوبی دور کیا اور اب ان کے ساتھ خوشی کی زندگی گزر بسر کر رہی ہیں۔
یہ کہانی ہے ایرک کی جنہوں نے کچھ وقت قبل ایک سوشل میڈیا پیج پر اپنا انٹرویو دیا تھا جہاں انہوں نے بتایا کہ: '' میں 10 سال کا تھا تو پتنگ اڑاتے ہوئے میرا ہاتھ کٹ گیا تھا، کیمیکل کا زہر اور الیکٹرک شاک کی وجہ سے زہر پھیلنے کا خدشہ تھا جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے ہاتھ کاٹنے کا کہا اور میرے والدین نے دل پر پتھر رکھ کر یہ کروایا، اس کے بعد میں نے اپنی مجبوری کو کمزوری بننے نہ دیا اور پھر میری بیوی نے میرے ہمقدم چل کر یہ واضح کر دیا کہ محبت سے بڑھ کر دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ''
لڑکی کہتی ہے: '' مجھے ایرک کا پیار کرنا، عزت دینا بہت پسند آیا، میرے پاپا نے منع کیا کہ یہ کیسے تمھیں کما کر کھلائے گا، میں نے یہی کہا کہ بازو نہیں ہے تو کیا ہوا، میں خؤد کرلوں گی، میرے پاس تو دونوں بازو ہیں نہ، میرے بازو ان کے بازو ہیں۔ ہمارے 2 بچے ہیں اور ہم دونوں خوشی خوشی رہتے ہیں، ہمیں کوئی گلہ نہیں، جو کچھ ہے ہم ساتھ ہیں اسی میں خوش ہیں۔ ''
ایرک کیا کام کرتے ہیں؟
ایرک فوڈ پانڈہ چیتا سے ڈیلیوری کرتے تھے اور اب کسی ہوٹل سے منسلک ہیں اور لاہور بھر میں وہ آرڈر ڈیلویر کرکے اپنے گھر کا خرچہ اٹھاتے ہیں۔
٭ کنزہ اور عدنان:
کنزہ اور عدنان 8 سال تک فیس بُک پر دوست تھے پھر دونوں نے شاید کا فیصلہ کیا تو گھر والوں نے اس پر اعتراض کیا کوینکہ عدنان چل پھر نہیں سکتا، اس کے ہاتھ پاؤں مڑے ہوئے ہیں یہ ہاتھوں سے چیزیں تو ٹھا سکتے ہیں البتہ چل نہیں سکتے، مگر کنزہ کو چونکہ ان سے محبت ہوگئی تھی کنزہ نے کسی کی نہ سنی اور اپنے والدین کو عدنان سے شاید کے لئے منا لیا، یہ کہتی ہیں کہ:''
میرے گھر والے کہتے تھے کہ وہ لڑکا جو خود اپنے قدم پر چل نہیں سکتا وہ تمہیں کیا کھلائے گا، لیکن مجھے خدا پر یقین ہے میرا ایمان ہے کہ ایک دن عدنان میرے سہارے سے ضرور چلے گا جس کے لئے میں محنت کر رہی ہوں اوروہ دن دور نہیں جب ان سب لوگوں کو میرا خدا جواب دے گا کہ میں نے معذور لڑکے سے شادی کرکے اس کو پاؤں پر کھڑا کردیا۔
''
حاصلِ سبق:
آج کل جہاں ہم اپنے معاشرے میں یہ مثالیں دیکھ رہے ہیں وہیں ایک عام سوال ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا اگر ان خواتین کی جگہ کوئی مرد ہوگا تو وہ کسی معذور سے شادی کرے گا؟ کیا اس صورت میں لڑکے کے گھر والے ایسی لڑکی کو قبول کریں گے؟
یہ سوال اس لئے ذہنوں میں آ رہا ہے کیونکہ جب لڑکے کی ماں اور بہنیں اس کے لئے لڑکی دیکھنے جاتی ہیں تو لڑکی پر ہزار باتیں بنائیں جاتی ہیں کہ موٹی ہے، سانولی ہے، وغیرہ وغیرہ اور اس سب میں لڑکی کا معذور ہونا ایک بڑی بات ہے، لین اگر ہم شعوری طور پر موازنہ کریں تو رنگ، جسامت اور معذوری کو رشتہ کرتے وقت پرکھنے سے اچھا ہے دل اور کردار، محبت اور اصولوں کو سامنے رکھا جائے۔