میری ماں کا انتقال ہوگیا تھا جب ہی دوسروں کے بچوں کو نام دیا اور پھر ۔۔ جانیں عبدالستار ایدھی کی زندگی سے متعلق چند ایسی باتیں جو آپ کو بھی رُلا دیں گی

ہماری ویب  |  Jul 08, 2021

کامیابی کے راستے انسان خود بناتے ہیں، کوئی پڑھائی میں محنت کر جاتا ہے تو کوئی کاروبار میں، لیکن کچھ ایسے بھی لوگ خدا نے دنیا میں بھیجے میں جو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے سوچتے ہیں اور ہمشیہ دوسروں کی خاطر جیتے ہیں۔ جب بھی دوسروں کے لئے کچھ کرنے یا قربانی و ایثار کے جذبے کی بات آئے تو ہماری زبانوں پر بے دھڑک عبدالستار ایدھی کا نام آتا ہے جن کی آج پانچویں برسی ہے۔ ایدھی وہ انسان ہے جس کا نام تا قیامت اس دنیا میں اور خصوصاً پاکستان میں لیا جائے گا۔ ایدھی وہ ہے جس نے کروڑوں بچوں کو اس وقت اپنایا جب کہ ان کے خونی رشتے بھی ان کو اپنا نہ سکے۔

عبدالستار ایدھی نے خدمتِ خلق کے لئے نہ صرف زندگی بھر محنت کی بلکہ مرتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں ضرورتمندوں کے لئے وقف کرواگئے۔ ایدھی صاحب کا خود ایک بیٹا ہے مگر لے پالک بچوں کی تعداد کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا، کہیں حادثہ ہو، کسی کو ایمبولینس چاہیئے ہو یا کسی کو قربانی کے بکروں کا صدقہ کرنا ہو سب کے لئے ایدھی فاؤنڈیشن موجود ہے، غرضیکہ زندگی کے ہر معاملے میں ایدھی صاحب کا نام لوگوں کی زبانوں پر ضرور ہوتا ہے کیونکہ ایدھی فاؤنڈیشن نے غریبوں اور مسکینوں کی ہی نہیں بلکہ ہر ضرورتمند کی زندگی آسان کردی ہے۔

ایدھی صاحب 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا نگر میں پیدا ہوئے تھے اور 11 سال کی عمر سے ہی انہوں نے دوسروں کی مدد کرنا شروع کی تھی اور یہ معاملہ ان کے زندگی کے آخری لمحوں تک چلتا رہا۔

ایدھی صاحب کی بیگم بلقیس ایدھی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہم کچے کے علاقے سے گزر رہے تھے کہ کچھ ڈاکوؤں نے ہمیں پکڑ لیا اور ہماری تلاشی لی اور پھر جب ڈاکو نے ہمیں اپنے سردار کے سامنے پیش کیا تو اس نے ایدھی صاحب سے پوچھا کہ آپ عبدالستار ایدھی صاحب تو نہیں ہیں؟ جس پر ایدھی صاحب نے کہا ہاں میں وہی ہوں، یہ میری بیوی ہے، جس پر وہ ڈاکو ایدھی صاحب کے پاؤں میں پڑ گیا، اور کہنے لگا آپ ہی تو وہ ہو جو ہم جیسے لوگوں کی لاشیں اٹھاتے ہو، ہمیں کفناتے ہو، دفناتے ہو، ہمیں کوئی قبول نہیں کرتا، آپ ہمارے لئے محنت کرتے ہو، ہمں معاف کردو اور یوں وہ ڈاکو بھی راہِ راست پر آگیا اور حق حلال کی کمائی کرنے لگا۔

2009 میں عبدالستار ایدھی صاحب نے مشہور صحافی رانا مبشر کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے اپنی شادی سے متعلق کچھ باتیں بتاتے ہوئے کہا کہ: '' مجھے شادی سے قبل 5 لڑکیاں پسند آئیں، مگر ان کی شادی کہیں اور ہوگئی، مجھے لڑکیاں پسند نہیں کرتی تھی، اور شاید میرے پاس ان کو دینے کے لئے کچھ تھا بھی نہیں جو وہ مجھے قبول کرتیں، میں نے کبھی ان لڑکیوں کی شادی کے بعد ان سے بات کرنے کی کوشش نہ کی، اور نہ کبھی اپنے خراب حُلیے کو سنوارنے کا سوچا ، سچ کہوں تو مجھے اس کا خیال ہی نہیں آیا، میرے پاس رہنے کو گھر تو نہیں تھا بس ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جو غریبوں اور نادارون کے لئے تھا، جہاں ہزاروں بچے ایدھی کی ذمہ داری تھے، جو لوگ بچے چھوڑ جاتے تھے، میرے ایدھی جھولے میں، ان کو میں بھی پالتا تھا، اور پھر ایک دن میرے پاس بلقیس کام کرنے کے لئے آئی، میں دیکھتا تھا کہ وہ بہت دل سے بچوں کو پالتی تھی، ان کی دیکھ بھال کرتی تھی، مجھے اس کی یہ بات بہت پسند آئی، میں نے اس کو شادی کا کہا تو اس نے جواب میں کہا کہ میری اماں سے پوچھ لو، میں نے کہا کیوں ڈرامہ کر رہی ہے، ہاں کردے، تو اس نے یہی کہ اکہ میری اماں کو کہہ دو، میں نے اس کی ماں سے کہا اور وہ شادی کے لئے رضامند ہوگئیں، میں جس حُلیے میں تھا، انہیں پُرانے کپڑوں میں مسجد گیا، عصر کی نماز ادا کی، اور امام صاحب سے کہا میرا نکاح کردو، امام نے کہا لاؤ 4 گواہ کہاں ہیں؟ اسی حالت میں نکاح کروگے، میں نے کہا کہ ہاں! یہ اتنے نمازی ہیں، لے لو کوئی بھی، جس کو چاہو، امام مسکرائے اور یوں شادی ہوگئی، جب میں مسجد سے باہر نکلا تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنے لوگ بن بلائے آگئے، صرف میری ایک جھلک دیکھنے کے لئے اور خواتین میری بیوی کے گھر جا پہنچیں صرف اس لئے کہ سب کو یہ دیکھنا تھا کہ میری بیوی کون ہے؟

اس وقت میرے پاس گھر بھی نہیں تھا، میرے بھائی نے مجھے رہنے کے لئے اپنا گھر دیا تھا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اب سب کچھ ہے۔ ایدھی صاحب تو دنیا سے چلے گئے مگر اج بھی ایدھی فاؤنڈیشن ویسے ہی کام کر رہی ہے جیسے ایدھی کی موجودگی میں کیا کرتی تھی۔

ایدھی صاحب کہتے ہیں کہ: '' میں نے اپنے سارے غم، دُکھ درد اور تکلیفیں ان کے نام کردی جن کو میری ضرورت تھی، میں نے ان بے سہاراؤں کو سہارا اس لئے نہیں دیا کہ مجھے عزت یا شہرت سے لگاؤ تھا، بلکہ مجھے اپنا وقت یا د آتا ہے جب میری ماں شدید بیمار تھی، اور مجھے چھوڑ گئی تھی، ماں باپ کے بغیر رہنا دل میں ہر پل کانٹے چبھنے کے برابر ہے اور میں نہیں چاہتا کہ جس درد کو میں نے سہا وہ اس قوم کے باقی بچے بھی سہیں۔ '' ''

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More