لاہور ہائیکورٹ کے جج انور حسین نے تاریخی فیصلہ سنا تے ہوئے کہا کہ حق مہر میں لکھی گئی کس بھی چیز سے شوہر کو استشنیٰ نہیں دیا جا سکتا ہائی کورٹ نے حق مہر میں لکھا گیا پانچ مرلے کا گھر بیوی کو دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کیلئے شوہر کی اپیل مسترد کردی۔
درخواست گزار محمد قیوم کی درخواست کو نا قابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی اور فیصلہ سنایا کہ نکاح نامے میں حق مہر کے خانے میں درج چیزیں اگر بیوی کو دینے کا وقت متعین نہیں تو شوہر بیوی کی ڈیمانڈ پر اسے دینے کا پابند ہے ،مسلم شادی کی روح کے مطابق بیوی کو اس کا مہر دینا قرآن و حدیث کی روشنی میں فرض ہے ۔
حق مہر شادی کے وقت دینا فرض ہے تاہم فریقین کی رضامندی سے اس میں تاخیر بھی
ہوسکتی ہے،آرڈیننس کے تحت شادی ایک سول معاہدہ ہے اور اسے رجسٹرڈ کروانا ضروری ہے اور موجودہ کیس میں نکاح نامے کے کالم 16میں مکان کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مکان کے انتقال کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا گیا جو متنازع ہے، سپریم کورٹ کے قوانین میں نکاح نامے کے کالم انڈر ٹیکنگ (حلف نامہ)ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شوہر اس بات کا پابند کہ نکاح نامے کے کالم 13سے 16 میں درج چیزیں بیوی کو دے،جبکہ اس موقع پر ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگ میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔