شادی کے بعد خواتین کی زندگی کے کئی پہلو بالکل بدل جاتے ہیں، کل تک جہاں والدین کو اپنی مرضی سے چلاتی تھیں، وہیں شادی کے بعد اپنی مرضی کے مطابق کوئی کام نہیں کر پاتی ہیں اور پھر اگر شوہر ساتھ نہ دے، ساتھ نہ رہے اور سسرالی اچھے نہ ہوں تو زندگی میں خوشیاں کم ہی محسوس ہونے لگتی ہیں۔
بالکل ایسی ہی ایک کہانی ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں جوکہ ڈرامہ سیریل '' پردیس'' میں دکھائی گئی ہے اور اس میں کسی حد تک وہ سچائی واضح کی گئی ہے جوکہ 34 فیصد پاکستانی خواتین کے ساتھ ہے جن کے شوہر دبئی، سعودیہ، عمان، قطر، امریکہ، جرمنی یا ملائیشیا وغیرہ میں ملازمت کرتے ہیں اور بیگمات بچوں کے ساتھ یہاں پاکستان میں رہتی ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں رہنے کا شوق نہیں ہوتا، اپنے گھر والے سب کو ہی پیارے ہوتے ہیں۔ مگر روزی کی خاطر گھر والوں سے دور رہنا ایک سب سے بڑی مجبوری ہوتی ہے، جس کے کسی حد تک ذمہ دار خود گھر والے ہی ہوتے ہیں جو مرد کی کمائی پر انحصار نہیں کر پاتے یا اپنی خواہشات کو اتنا بڑھا وا دے دیتے ہیں کہ مجبوراً مرد گھر سے دور نکل جاتا ہے۔
اس ڈرامے میں آپ اگر غور کریں تو بیوی ہر حال میں شوہر کی کمائی پر گزر بسر کر رہی ہے، مگر محدود کمائی کے پیشِ نظر مرد نے ملک سے باہر نوکری ڈھونڈھ لی تاکہ بچی اور بیوی کے ساتھ ماں اور بھائی بہن کی کفالت بھی کرسکے، جبکہ اس کا بھائی جو جوان ہے یہاں تک کہ شادی بھی ہوچکی ہے، لیکن گھر چلانے والی کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار نہیں جبکہ وہ خود ایک ننھی سی جان کا باپ بننے والا ہے۔
وہ بیوی جو سب کچھ برداشت کر رہی تھی، اس کو جب پتہ چلا کہ اس کا ساتھ دینے والا شوہر ہی اچانک ملک سے باہر جا رہا ہے اور کتنے عرصے کے لئے جا رہا ہے یہ بھی اندازہ نہیں ہے۔ ایسے میں اس کے دل پر تو قیامت ٹوٹ پڑی، وہیں ساس اور لالچی دیور کے تو کان کھل گئے، انہوں نے اپنی آنکھیں باہر کی کمائی پر جما لی ہیں اور ایک دوسرے کو ان نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ اب تو ان کے پاس ڈھیروں کی دولت آنے والی ہے جوکہ بڑے بھائی کی محنت اور خون پسینے کی کمائی ہے۔
آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ جوں ہی شوہر بیرون ملک نکل جاتا ہے، ساس اپنی معصوم بہو پر ظلم کرنا شروع کردیتی ہے اور جب بھی اس کا فون آتا ہے تو اس کو سچ بتانے اور یہاں تک کہ یہ بات بھی بتانے سے منع کردیتی ہے کہ وہ امید سے ہے۔
آخر ہمارے معاشرے میں ایسا ہی کیوں ہوتا ہے کہ جب شوہر نہ ہو تو ساس اپنی نفرت بہو کے لئے بڑھا دیتی ہے، جبکہ گھر والوں کو چاہیئے کہ وہ بیٹے کی غیر موجودگی میں بھی بہو کا خیال رکھیں۔ اپنے بچے کی اولاد کو قبول کریں، ان کے ساتھ گھل مل کر رہیں اور اگر فون آئے تو میاں بیوی پر بات کرنے پر پابندی نہ لگائی جائے اور ایسی باتیں نہ کی جائے جس سے دور بیٹھے مرد کا دل خراب ہو جائے۔
جہاں اس ڈرامے کی بات ہے وہیں اگر عام زندگی کی طرف دیکھیں تو کچھ ایسی بھی مثالیں ملتی ہیں جہاں بہو جھوٹ بولتی اور ہے غلط بیانی کرتی ہے اور شوہر کے کان اپنے ماں باپ اور گھر والوں کے خلاف بھرتی ہے۔ ان تمام حالات و واقعات اور معاملات میں اگر کسی کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے تو وہ اس مرد کا ہے جو گھر سے دور خود گھر والوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی خاطر اتنی محنت سے کمائی کر رہا ہے۔
جب شوہر یوں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو بیویوں پر بھی بہت ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے، ایک تو بچوں کی تربیت اکیلے کرنی پڑتی ہے اور گھر والوں کا سہارا بھی بننا پڑتا ہے، کیونکہ وہ ماں جس کی اولاد اس سے اتنی دور ہوگئی ہے اگر وہ تکلیف میں ہے تو اس کی تکلیفوں کو بھی اپنا سمجھ کر ان کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ کچھ ایسی مثبت تبدیلیاں اگر خواتین اپنی زندگی میں شوہروں اور بیٹوں کے غیر ملک جانے کے بعد کرلیں تو ایک صحت مند گھرانہ تشکیل پاتا ہے۔