گوادر کا بلوچ سپاہی جس نے پنجابی مزدوروں کی زندگیاں بچانے کے لیے جان کی قربانی دی

اردو نیوز  |  May 15, 2025

گوادر پولیس کے جوان محمد بلوچ عرف خماری اپنی معمول کی ڈیوٹی پر تعینات تھے جب انہوں نے رات کے درمیانی پہر چند سو میٹر کے فاصلے پر دھماکے اور فائرنگ کی آواز سنی۔ بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے وہ فوراً اس سمت دوڑے۔

موقع پر پہنچے تو انہوں نے دو موٹر سائیکل سوار مسلح افراد کو دیکھا جو رہائشی کوارٹر میں مقیم پنجابی مزدوروں پر حملہ کر رہے تھے۔

ڈی ایس پی گوادر چاکر بلوچ کے مطابق 11 مئی کی رات کو گوادر کی بلال مسجد چوک کے قریب واقع رہائشی کوارٹر پر حملہ آوروں نے پہلے دستی بم پھینکے اور پھر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں تین مزدور زخمی ہوئے۔

اگر محمد بلوچ فوری نہ پہنچتے تو شاید کئی مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔

ان کے مطابق ’فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشتگرد موقع پر ہلاک اور دوسرا شدید زخمی ہو کر گرفتار ہوگیا۔ بدقسمتی سے محمد بلوچ بھی فائرنگ کی زد میں آ کر شہید ہو گئے۔‘

بلوچستان میں غیر مقامی مزدوروں خاص طور پر پنجابی مزدوروں یا مسافروں  پر جان لیوا حملے کوئی نئی بات نہیں۔ ان حملوں میں اکثر حملہ آور واردات کے بعد با آسانی فرار ہوجاتے ہیں اور متاثرہ خاندان انصاف کے متلاشی رہتے ہیں مگر گوادر میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا اور غیر معمولی واقعہ ہے ۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس مکران ریجن پرویز عمرانی کا کہنا ہے کہ یہ شاید بلوچستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب ایک پولیس اہلکار نے غیر مقامی مزدوروں پر حملے کے بعد نہ صرف حملہ آوروں کو موقع پر روکا بلکہ اپنی جان پر کھیل کرنہ صرف مزدوروں کی جانیں بچائیں بلکہ دہشتگرد کو بھی انجام تک پہنچایا۔

گزشتہ برس مئی میں گوادر کے علاقے سربندر میں سات پنجابی مزدوروں کو ان کے کمرے میں گھس کر قتل کیا گیا تھا۔ رواں سال مارچ میں گوادر سے کراچی جانے والے چھ پنجابی مسافروں کو بس سے اتار کر قتل کیا گیا تھا۔

23 سالہ محمد بلوچ نے محض ڈیڑھ سال قبل پولیس فورس جوائن کی تھی۔ فوٹو: بشکریہ فیملی

ڈی ایس پی گوادر چاکر بلوچ کے مطابق غیر مقامی مزدوروں کے قتل کے واقعات کے بعد گوادر پولیس نے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے تھے۔ شہر کے ان علاقوں میں جہاں غیر مقامی مزدور رہائش پذیر تھے وہاں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ محمد بلوچ اسی ڈیوٹی پر مامور تھے جب اس نے دھماکے کی آواز سنی اور پھر فوری رد عمل دیا۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس کے اس بہادر جوان نے چند سو میٹر تک دوڑ کر موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں کا پیچھا کیا اور اکیلے ہونے کے باوجود ان کا بھر پور مقابلہ کیا۔

چاکر بلوچ کا کہنا ہے کہ محمد بلوچ کی یہ بہادری اور قربانی نہ صرف ایک مثال ہے بلکہ ان عناصر کا جواب بھی ہے جو سماج میں نفرت یا تعصب پھیلاتے ہیں۔

محمد بلوچ کے بھائی اسماعیل نور بخش کے مطابق 23 سالہ محمد بلوچ عرف خماری نے محض ڈیڑھ سال قبل پولیس فورس جوائن کی تھی اور تین چار ماہ پہلے ہی تربیت مکمل کر کے باقاعدہ   ڈیوٹی دینا شروع کی تھی۔

اسماعیل کے مطابق محمد بلوچ 14بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور لاڈلا تھا۔ اس نے بارہویں پڑھنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کی لیکن نہیں ملی۔ پولیس میں جانے کا شوق تھا اس لیے جب ڈیڑھ سال پہلے پولیس میں نوکریاں آئیں تو اس نے اپلائی کیا اور اپنی قابلیت کی بنیاد پر سلیکٹ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں اپنے اپنے بھائی کی قربانی پر فخر ہے جنہوں نے کسی کی شناخت نہیں دیکھی، صرف فرض دیکھا اور فرض کی ادائیگی میں جان دے دی۔‘

ڈی آئی جی مکران پرویز عمرانی اور ایس ایس پی گوادر ضیاء مندوخیل نے گوادر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ محمد بلوچ نے نہ صرف پولیس بلکہ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مثال قائم کی ہے۔

محمد بلوچ کی یاد میں گوادر پولیس چیک پوسٹ کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت اور آئی جی پولیس نے لواحقین کے لیے ایک کروڑ روپے اور خاندان کے ایک فرد کو ملازمت دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔

گوادر میں طلبہ اور شہریوں نے شمعیں روشن کر کے محمد بلوچ کو خراج تحسین پیش کیا۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے محمد بلوچ کی قربانی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایک بلوچ سپاہی نے غیر مقامی مہمان مزدوروں کے تحفظ کے لیے اپنی جان نچھاور کی۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More