دنیا کی آبادی میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہاں نہ صرف زندہ لوگوں کے لئے رہائش کم پڑتی نظر آرہی ہے بلکہ مرنے کے بعد مناسب ابدی آرام گاہ کا حصول بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔
دنیا میں مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہ وقت آگیا ہے کہ اب قبرستان میں دفنانے تک کی جگہ میسر نہیں ہوتی۔
کچھ معاشروں میں لاشوں کو جلا کر ٹھکانے لگایا جاتا ہے جبکہ الہامی مذاہب میں میت کو دفن کرتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کے باعث قبریں اور زمین کم پڑتی جا رہی ہیں۔
اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے بعض ممالک میں زمینی قبرستان کی بجائے عمارت کی شکل میں عمودی قبرستانوں کا رواج بڑھ رہا ہے۔ قبروں کیلئے زمین کی دستیابی اور آبادی کے تناسب کے پیش نظر برازیل کے شہر سینٹوس میں 1983ء میں ایک بلند و بالا عمارت کی تعمیر شروع ہوئی، جو اب دنیا کی سب سے اونچی قبرستانی عمارت بن چکی ہے اور اس قبرستان کی عمارت کا اندراج گنیز ورلڈ بک آف ریکارڈ میں بھی ہو چکا ہے۔
یہ ایک پہاڑ کے دامن میں 32 منزلہ خوبصورت عمارت 108 میٹر بلند ہے۔ اس کا نام میموریل نیکرو پول ایکو مینیکا ہے۔ اس کے احاطہ میں لان، پارکنگ، چرچ، باغ ایک آبشار اور ریسٹورنٹ بھی موجود ہیں۔ 32 منزلوں میں کئی بلاکس ہیں اور ہر بلاک میں 150 مقبرے ہیں۔
اس کے علاوہ ہر مقبرے میں چھ قبریں بنی ہیں۔ اس بلند و بالا قبرستان میں ایک وقت میں 25000 میتوں کی گنجائش ہے۔ یہاں تین سال تک لاشیں کرائے پہ رکھی جاتی ہیں اور تین سال بعد ان کی باقیات ورثا کے حوالے کرتے ہیں تاکہ کسی اور جگہ دفن کر سکیں یا پھر ضائع کرسکیں۔ قبروں کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے ہوا کے گزرنے کے مناسب انتظامات ہیں۔
قبر جتنی اونچائی پر ہوگی اِس کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ یہ عمارت برازیل کا بہت بڑا سیاحتی مقام بن چکی ہے اور لاکھوں سیاح یہاں کے مناظر دیکھنے کے لئے آتے ہیں ۔ تاہم دنیا میں بسنے والے زندہ لوگوں کے لئے لاشوں کی تدفین ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے کیونکہ دنیا تو بس مسافر خانہ ہے اور ہمیں اپنی آخری آرام گاہوں میں ہر صورت جانا ہے۔