اس بات سے کوئی نا واقف نہیں کہ دنیا کے کئی ممالک میں وبائی مرض کورنا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن جاری ہے۔ بے شمار لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں تاہم چند افراد گھروں میں کچھ بھی نہیں کر رہے۔
کسی قسم کا کام نہ کرنا، فارغ رہنا ، آرام کرنا، سننے میں یہ سب مثالی صورتحال لگ رہی ہے کہ ہر وقت بس آرام کیا جائے، کوئی کام نہ کریں لیکن یہ ایسی صورتحال ہے جس میں انسان کے دماغ پر اثر پڑتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ حیران کن نہیں لوگ معمول سے زیادہ تھکاوٹ اور غنودگی محسوس کر رہے ہیں کیونکہ نفسیاتی طور پر انسان نشوونما اور متحرک رہنے کے لیے بنے ہیں۔
ماہر نفسیات لوسی بیرس فورڈ کے مطابق اگر لوگ کسی قسم کی سرگرمی کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بناتے تو وقت گزارنا انتہائی تکلیف دہ ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں میں تھکاوٹ، غنودگی یا ڈپریشن جیسے احساسات پیدا ہوسکتے ہیں، یعنی ہم جتنا کم متحرک ہوں گے، اتنا ہی خود کو تھکا ہوا محسوس کریں گے۔
ڈاکٹر روجر ہینڈرسن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس قسم کے پریشان کن حالات میں ذہنی بے چینی کا باعث بننے والے ہارمونز جیسے ایڈرینالائن کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں جسمانی توانائی میں کمی آتی ہے، جبکہ جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سست طرز زندگی بھی ذہنی طور پر غنودگی کے احساس کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔
ان کے مطابق جتنا کم وقت ورزش یا جسمانی طور پر کم متحرک رہیں گے، اتنی ہی تھکاوٹ زیادہ محسوس ہوگی، طویل دورانیے تک بیٹھے یا لیٹے رہنے کے نتیجے میں فٹ افراد بھی تھکاوٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں، کیونکہ پٹھوں کے افعال میں تبدیلی آتی ہے۔
اس کا حل کافی آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ کچھ وقت ورزش کے لیے مخصوص کر دیا جائے، جو بائیو کیمیکل اور ہارمونل توازن میں مدد فراہم کرے گا، جبکہ اس سے ذہنی بے چینی کا باعث بننے والے ہارمونز کی کچھ مقدار کو جلانے میں بھی مدد ملے گی۔
صبح و شام لیٹے رہنے سے بہتر ہے کہ انسان ہلے جلے، اس وقت کو غنیمت جانے اور اپنے جسم کو متحرک رکھے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ورزش کو اپنی حالیہ زندگی کا معمول بنا لیں۔
آپ خود کو ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے بہتر محسوس کریں گے۔