کورونا وائرس صرف ایک خاندان کا نام ہے اور یہ ایک بہت پرانا وائرس ہے جو پہلے 1930 میں مرغیوں میں دریافت ہوا، پھر یہ 1940 میں چوہوں میں پایا گیا۔ اس کے بعد سنہ 1960 میں انسانوں میں کورونا وائرس کا مرض دریافت ہوا۔ ان میں سے ایک کوویڈ انیس (COVID-19) ہے جس نے آج پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔
ماہرین نے اس وائرس کے حوالے سے بتایا کہ اس کی تین خطرناک اقسام ہیں جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں، ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والا مہلک کورونا وائرس درحقیقت اس کی اصل قسم نہیں بلکہ یہ وائرس کی بی قسم ہے جو اوریجنل سارس کوویڈ 2 وائرس یا ٹائپ اے سے بنا۔
دوسری جانب ٹائپ اے ورژن امریکا اور آسٹریلیا میں زیادہ پایا جارہا ہے جبکہ اس کی ایک تیسری قسم ٹائپ سی ہے جو ٹائپ بی سے بنی اور سنگاپور کے راستے یورپ میں پھیل گئی۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس وائرس میں لگاتار تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں جس سے وہ مختلف ممالک کی اقوام کے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچاتا آرہا ہے۔
سائنسدانوں نے پہلی بار اس وائرس پر تحقیق کرنے کے لئے استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وائرس کے پھیلاؤ کو ٹریک کیا۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کئی تعداد میں کورونا وائرس پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے اب تک صرف سات ایسے ہیں جو انسانوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
ان سات کورونا وائرسز میں سے 4 کورونا وائرس انسانوں میں سردی اور زکام جیسی علامات ظاہر کرتے ہیں جب کہ بقیہ تین کورونا وائرس انسانوں کے لئے سنگین خطرے کا باعث بنتے ہیں۔